Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کعب بن اشرف کا قتل

یہودیوں میں کعب بن اشرف بہت ہی دولت مند تھا۔ یہودی علماء اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو اپنے خزانہ سے تنخواہ دیتا تھا۔ دولت کے ساتھ شاعری میں بھی بہت با کمال تھا جس کی وجہ سے نہ صرف یہودیوں بلکہ تمام قبائل عرب پر اس کا ایک
خاص اثر تھا ۔اس کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے سخت عداوت تھی۔ جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سرداران قریش کے قتل ہو جانے سے اس کو انتہائی رنج و صدمہ ہوا۔ چنانچہ یہ قریش کی تعزیت کے لئے مکہ گیا اور کفارِ قریش کا جو بدر میں مقتول ہوئے تھے ایسا پردردمرثیہ لکھا کہ جس کو سن کر سامعین کے مجمع میں ماتم برپا ہو جاتا تھا۔ اس مرثیہ کو یہ شخص قریش کو سنا سنا کر خود بھی زار زار روتا تھااور سامعین کو بھی رلاتا تھا ۔مکہ میں ابو سفیان سے ملااور اس کو مسلمانوں سے جنگ ِ بدر کا بدلہ لینے پر ابھارابلکہ ابو سفیان کو لے کر حرم میں آیااور کفار مکہ کے ساتھ خود بھی کعبہ کا غلاف پکڑ کر عہد کیا کہ مسلمانوں سے بدر کا ضرور انتقام لیں گے پھر مکہ سے مدینہ لوٹ کر آیا تو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو لکھ کر شان اقدس میں طرح طرح کی گستاخیاں اور بے ادبیاں کرنے لگا،اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کو چپکے سے قتل کرا دینے کا قصد کیا۔
کعب بن اشرف یہودی کی یہ حرکتیں سراسراس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو یہود اور انصار کے درمیان ہو چکا تھاکہ مسلمانوں اور کفارِ قریش کی لڑائی میں یہودی غیر جانبدار رہیں گے۔بہت دنوں تک مسلمان برداشت کرتے رہے مگر جب بانیئ اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تو حضرت محمد بن مسلمہ نے حضرت ابونائلہ و حضرت عباد بن بشر و حضرت حارث بن اوس و حضرت ابو عبس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لیااور رات میں کعب بن اشرف کے مکان پر گئے اور ربیع الاول    ۳ھ؁ کو اس کے قلعہ کے پھاٹک پر اس کو قتل کر دیااور صبح کو بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اس کا سر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ اس قتل کے سلسلہ میں حضرت حارث بن اوس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار کی نوک سے زخمی ہو گئے تھے۔ محمد بن مسلمہ
وغیرہ ان کو کندھوں پر اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے اور آپ نے اپنا لعاب دہن ان کے زخم پر لگا دیا تو اُسی وقت شفاء کامل حاصل ہو گئی۔(1)  (زرقانی جلد۲ ص۱۰ و بخاری ج۲ ص۵۷۶ و مسلم ص۱۱۰)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!