ویران پہاڑیاں
ویران پہاڑیاں
حضرت سیدنا محمد بن ابو عبداللہ خزاعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” شام کے رہنے والے ایک شخص نے مجھے بتایاکہ ”ایک مرتبہ میں ویران پہاڑیوں میں پہنچا ، وہ ایسی جگہ تھی کہ لوگ ایسی جگہوں کی طرف کم ہی آتے ہیں، وہاں میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جس کی بھنویں بھی سفید ہوچکی تھیں وہ گردن جھکائے بیٹھا تھا اور اس طرح صدائیں بلند کر رہا تھا” اگر تو نے
دنیوی زندگی میں میری محنت ومشقت کو طویل کردیا ، اور اُخروی زندگی میں بد بختی وشقاوت کو طویل کردیا تو اے کریم پروردگار عزوجل پھر تومیں بالکل بیکارہوگیاتیری رحمت سے دورہوگیا،وہ شامی شخص کہتا ہے کہ ، میں اس بوڑھے شخص کے پاس گیا ، اسے سلام کیا تو اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا ، اس کا سارا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور آنسوؤں نے زمین کو تر کردیا تھا پھر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا :” کیا دنیا تمہارے لئے وسیع وعریض نہیں ،کیا وہاں کے لوگ تم سے مانوس نہیں ؟ جب میں نے اس کا یہ عقلمندانہ کلام سنا تو میں بہت متأ ثر ہوا اور کہا : ”اللہ عزوجل تم پر رحم فرمائے تم نے لوگو ں سے دوری اختیار کرلی ہے اور تم اس ویران جگہ آگئے ہو، تم نے ایسا کیوں کیا؟
یہ سن کر اس نے کہا :”اے نوجوان! جس راستہ کو تم قرب ِالٰہی عزوجل کے حصول کے لئے بہتر سمجھتے ہو ، وہی راستہ اختیار کرو ، اس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی اور راستہ نہیں۔”
میں نے پوچھا:” تم کہاں سے کھا تے ہو؟” کہا : مجھے کھانے کی کم ہی حاجت پڑتی ہے، بہر حال جب مجھے بہت زیادہ بھوک محسوس ہوتی ہے تو درختو ں کے پتے اور گھاس وغیرہ کھا کر گزارہ کرلیتا ہوں ۔ میں نے کہا :” اے بزرگ ! اگر چاہو تو میں تمہیں اس ویران جگہ سے نکال کر سر سبز وشاداب جگہ لے چلتا ہوں ؟” یہ سن کر اس نے روتے ہوئے کہا:”بہاریں اور سر سبز وشاداب علاقوں میں اس وقت رہنا بہتر ہے جب وہا ں اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کی جائے ، اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور مرنے کے قریب ہوں، نہ اب مجھے لوگوں کے پاس جانے کی حاجت ہے اور نہ ہی سرسبز وشاداب علاقوں میں جانے کی تمنا ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)