بعض سلفِ صالحین رحمہم اللہ تعا لٰی کے واقعات
بعض سلفِ صالحین رحمہم اللہ تعا لٰی کے واقعات
(یہ باب حضرتِ سیِّدُناشعیب حریفیش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرتِ سیِّدُنا
شیخ عزُّ الدین مَقْدِسی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے کلام سے نقل فرمایا ہے۔)
حمد ِباری تعالیٰ:
سب خوبیاں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جوحق کوظاہرفرمانے والاہے،اپنے وعدوں کو پوراکرنے والا ہے۔بندے کی سعادت و شقاوت اسی کے دستِ قدرت میں ہے، گناہوں کو مٹانے والا، پردہ پوشی فرمانے والا، دلوں کی پیاس بجھانے والا، اپنے عشق کی بیماری لگانے والا اور شفادینے والاہے ، غموں کو دور کرنے والاہے، بادَل کو پیدا کرنے والااور اسے بھیجنے والا ہے۔ بجلی کو چمکانے والا اور اس سے روشنی ظاہر کرنے والا ہے،بجلی کوگرَج کی آواز دینے والا ہے، درختوں کو پتے دینے والا اور انہیں پروان چڑھانے والا ہے، کلیوں کو حسن اورخوبصورتی دینے والا ہے، پھلوں کو کڑوا اور میٹھا بنانے والاہے ، ماں کے پیٹ میں بچے کی تصویر بنانے والا اور اسے غذا دینے والا ہے،حق کو ثابت کرنے والا اوراسے باقی رکھنے والا ہے، باطل کوغلط ثابت کرنے والا مٹانے والا ہے۔ اس نے مخلوق کو اپنی پہچان کرائی تو اس کے بندے حیران وپریشان ہوگئے اوراس کی معرفت کی راہیں دشوار ہوگئیں اور سالکین نے میدانوں میں بستر جما دئیے اورپھر عقلوں کی طرف مائل ہوئے تو عقلوں نے جواب دیا: ہم تو یہ بھی نہیں جانتیں کہ ہم کہاں سے آئیں ، تو سالکین نے فکروں کی طرف اپنا قاصد بھیجا مگر وہ ایسی جگہ بھٹک گیا جہاں ہر سمجھ دار بھی بھٹک جاتا ہے ۔ پھر انہوں نے عقلوں کے ساتھ بصیرتوں کے چراغ روشن کئے اور نورِ ایمان کے ساتھ رہنمائی حاصل کی، جب بھی چراغ ان کے لئے روشن ہوتے ہیں تو وہ چلنے لگتے ہیں۔جب وہ عرفان کی منزل تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی بڑائی ان کے لئے غیر مانوس ہوگئی اور اس کی کبریائی اُن سے چھپ گئی۔ پھر وہ دِلوں کی طرف پلٹے تو دلوں نے کہا : ہم توہر عیب سے منزہ و مبرّہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر ہیں ، اور گھر والا ہی اس میں موجود شئے کے متعلق زیادہ جانتا ہے۔
پھر انہوں نے اسمائے الٰہیہ عَزَّوَجَلَّ سے رہنمائی چاہی تو اسماء نے جواب دیا: ہم تواس کو نام دینے کی طاقت نہیں رکھتے پھر وہ صفات کی طرف متوجہ ہوئے تو صفات نے بھی یہی کہا کہ ہم اسے ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں پھر وہ کلمات کی طرف بڑھے توکلمات نے کہا: ہم تو صرف کلمات ہیں جو وحی کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے عرش سے التماس کرتے ہوئے عرض کی: ”کیا تو اپنے قرب کے سبب اس کی ذات تک پہنچا سکتا ہے یا اس کے قریب کرسکتا ہے؟” تو مدہوشی میں ڈوبے ہوئے اور حیرت میں فنا عرش نے انہیں پکار کر کہا: ”میں اس کا احاطہ نہیں کر سکتا کہ اس کی پہچان حاصل کر سکوں، اور میں اس کو اٹھائے
ہوئے نہیں کہ اس کے متعلق کچھ بتا سکوں، میں اس کے ساتھ ملا ہوا بھی نہیں کہ میرا مقام اس سے قریب ہو اور نہ اس سے جدا ہوں کہ میرا مقام اس سے دور ہو۔ یقینا تم نے مجھ سے ایسے امر کا سوال کیا ہے جو میں نہیں جان سکتا اور تم نے ایسے راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ میں بھی ہمیشہ اس کی تلاش اور سراغ میں رہا مگر مجھے حیرت اوربھٹکنے کے سوا کچھ نہ ملا۔” یہ سن کر سالکین کہنے لگے: ”اگر تو بھی اس کی معرفت حاصل نہ کر سکا تو اس بلند وبرتر ذات سے تیرے قرب کا کیا فائدہ! حالانکہ لوگوں نے تو تجھے بلند رتبہ قرار دیا ہے؟”
تو عرش بولا: ”میرا اللہ عزَّوَجَلَّ سے ایسا ہی قرب ہے جیسا سانس کا اپنی نالیوں سے ہے اور میری اس سے ایسی ہی دُوری ہے جیسی تِیرچلانے والے سے تِیر کی ہوتی ہے، میں اس کی بارگاہ میں ایساہی حقیر ہوں جیسے غلام اپنے مالکوں کے سامنے ہوتا ہے، مجھے بھی اس کا اتنا ہی اشتیاق ہے جتنا عاشق کو اپنے محبوب سے ملاقات کے ایام کا شوق ہوتاہے۔” انہوں نے دوبارہ کہا: ”پھر تُو ربّ عَزَّوَجَلَّ کے متعلق کیا کہتا ہے؟” تو عرش کہنے لگا : میں وہی کہتا ہوں جو اس کی تلاش میں سرگرداں اور اپنی اُمیدیں نہ پانے والا کہتا ہے۔” سالکین نے کہا: ”جب تُو اس کی تعریف کرے تو ہر عیب سے اس کی پاکی بیان کراور کسی شئے کو اس کے مشابہ قرار دینے سے بچ اور یوں کہہ: وہ ایسا اوّل ہے کہ کوئی اوّل اس کا ثانی نہیں اور ایسا آخر ہے کہ کوئی آخراس کے قریب نہیں، ایسا ظاہر ہے کہ کوئی ظاہر اس کے مشابہ نہیں، ایسا باطن ہے کہ کوئی باطن اس کی برابری نہیں کر سکتا، ایسا دور ہے کہ کوئی مسافت اس جتنی نہیں ہو سکتی، ایسا قریب ہے کہ تو جب چاہے اس سے ملاقات کر لے، ایسا واحد ہے کہ کوئی واحد اس کے مقابل نہیں، وہ ایسا یکتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں کہ اس کی حد ختم ہو جائے، اگر تو اس سے خالص دوستی رکھے تووہ تجھے اپنے پسندیدہ جام سے پاک و صاف شربت پلائے گا اور اگر اس کی محبت کا جام پی لیا جائے تو پینے والا دوسروں کو پلانے والا بن جاتا ہے۔
یا الٰہی! میرامقصود بس تو ہی تو ہے،اور تاریکیوں میں میرے لئے نور اور روشنی ہے۔ یا الٰہی! تیرے تو میرے علاوہ بھی بہت بندے ہیں مگر میرے لئے تیرے سوا کوئی نہیں، میں نے جہالت کے سبب تیری نافرمانی کی اوربرے افعال کے باوجودتجھ سے دعا کی پھر بھی تو نے اپنے فضل وکرم سے میری دعا قبول فرما ئی اورمیں نے تیری طرف رجوع کیا تو تُو نے میری اُمید پوری کر دی، میں نے تیری بارگاہ میں اپنے دل کی بیماری کا شِکوَہ کیا تو تُو نے میری تکلیف زائل فرمادی اور مجھے فوراً شفا عطا فرمادی، کتنے ہی خطرات اور مشکلات نے مجھے گھیرا مگر تو نے میری بھر پور اعانت کی اوردشمنوں کے خلاف میری مددفرمائی۔اے مشکلات اور تکالیف میں میری اُمیدگاہ! تیرے لئے ہی سب تعریفیں ہیں۔