ترک ِ نفاق
ترک ِ نفاق
سلف صالحین کی عادتِ مبارکہ میں ترک نفاق بھی تھا ان کا ظاہر و باطن عمل خیر میں مساوی ہوا کرتا تھا ۔ ان میں سے کوئی ایسا عمل نہیں کرتا تھا جس کے سبب آخرت میں فضیحت ہو ۔ حضرت خضر علیہ السلام عمربن عبدالعزیزرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ
مدینہ مشرفہ میں جمع ہوئے عمربن عبدالعزیزرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ آپ مجھے کوئی نصیحت فرمادیں تو آپ نے فرمایا:’’ایاک یا عمر ان تکون ولیا للّٰہ فی العلا نیۃ و عدوا لہ فی السر‘‘ کہ اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اورباطن مساوی نہ ہو تووہ منافق ہوتاہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے ۔یہ سن کر عمربن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساوا تہم السر والعلا نیۃ، ص۳۹)
مہلب بن ابی صفرہ فرمایا کرتے تھے:’’ انی لاکرہ الرجل یکون للسانہ فضل علی فعلہ‘‘
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساوا تہم السر والعلا نیۃ، ص۴۰)
کہ میں ایسے شخص کو بنظر کراہت دیکھتا ہوں جس کی زبان کو اس کے فعل پر فضیلت ہو ۔ یعنی اس کے اقوال تو اچھے ہوں لیکن افعال اچھے نہ ہوں ۔
عبدالواحد بن زید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے کہ امام حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جس مرتبہ کو پہنچے اس لئے پہنچے ہیں کہ جس شے کا آپ نے کسی کو حکم دیا ہے ۔ سب سے پہلے آپ نے اس پر عمل کیا ہے اور جس شے سے کسی کو منع کیاہے سب سے پہلے خود اس سے دور رہے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ ہم نے کوئی آدمی حسن بصری سے زیادہ اس امرمیں نہیں دیکھا کہ اس کا ظاہر اس کے باطن کے ساتھ مشابہ ہو ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساوا تہم السر والعلا نیۃ، ص۴۰)
معاویہ بن قرہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے ’’بکاء القلب خیر من بکاء العین‘‘
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۰)
آنکھوں کے رونے سے دل کا رونا بہتر ہے ۔ مروان بن محمدکہتے ہیں کہ جس آدمی کی لوگوں نے تعریف کی، میں نے اس کو ان کی تعریف سے کم پایا مگر وکیع رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو کہ ان کو میں نے لوگوں کی تعریف سے زیادہ پایا۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۰)
عتبہ بن عامر کہتے ہیں جب کسی بندہ کا ظاہر اور باطن یکساں ہوتو اللہ تَعَالٰی اپنے فرشتوں کو فرماتا ہے:’’ھذا عبدی حقًا‘‘یہ میرابندۂ حقیقی ہے۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۰)
ابو عبداللہ انطاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : باطنی گناہوں کو ترک کرنا افضل الاعمال ہے ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی توفرمایا کہ جس نے باطنی گناہوں کو ترک کیا وہ ظاہری گناہوں کو زیادہ ترک کرنے والاہو گا اور فرمایا کہ جس کا باطن اس کے ظاہر سے افضل ہو وہ خدا کا فضل ہے اور جس کا ظاہر و باطن مساوی ہو وہ عدل ہے اور جس کاظاہر اس کے باطن سے اچھا ہو وہ ظلم و جور ہے ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۰)
یوسف بن اسباط رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تَعَالٰی نے انبیاء میں سے کسی نبی پر وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو کہہ دیجئے کہ وہ اعمال کو میرے لئے پوشیدہ کریں میں ان کے اعمال کو ظاہر کردوں گا۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۰)
یعنی جو شخص خدا کے لئے پوشیدہ عبادت کرے گا اللہ تَعَالٰی اس کی عبادت کا چرچا دنیا میں کر ے گااوراہل دنیا میں وہ عابد مشہور ہوجائے گا ۔ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ
فرماتے ہیں کہ ایک بات سے بچنا کہ تو دن میں تو بندہ صالح بنارہے اور رات کو شیطان طالح ہوجائے ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۱)
معاویہ بن قرہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مجھے کوئی ایسا شخص بتائیے جو رات کو روتا ہے اور دن کو ہنستا ہے ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۱)
یعنی ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔
ابو عبداللہ سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لوگوں کو فرماتے تھے جب کہ وہ(لوگ) ان کی تعریف کرتے تھے’’واللّٰہ مامثلی ومثلکم الا کمثل جاریۃ ذہبت بکارتھا بالفجور واہلھا لا یعلمون بذلک فھم یفرحون بھا لیلۃ الزفاف وھی حزینۃ خوف الفضیحۃ‘‘(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۱)
خدا کی قسم! میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے ایک لڑکی ہو جس کی بکارت بسبب بدکاری کے زائل ہوگئی ہو اور اس کے اہل کو معلوم نہ ہو تو زفاف کی رات کو اس کے اہل تو خوش ہوں گے اور وہ فضیحت کے خوف سے غمناک ہوگی کہ آج میری کرتوت ظاہر ہو جائے گی۔
حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں ریا کی کثرت ہوگئی ہے ۔ لوگ عبادت کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کا باطن حسد و حقد ، بغض و عداوت بخل وغیرہ میں مشغول ہے ۔ اگر تمہیں ان عابدوں کے ساتھ کوئی حاجت پیش آئے تو کسی ایسے عابد یا عالم کو جو اس کے مثل ہو ، سفارش کے لئے نہ لے جانا کہ وہ اس سے ناراض ہوگا ۔ البتہ کسی بڑے دولت مند کو سفارشی لے جائے گا تو تیرا کام ہوجائے گا۔(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، مساواتہم السر والعلانیۃ، ص۴۲، ملخصًا)
حاصل یہ کہ ان لوگوں کو دنیا داروں سے محبت ہوگی اور اپنی عبادت نمودوریا کیلئے کرتے ہوں گے ، اسلئے دنیاداروں کا کہنا تو مان لیں گے لیکن اپنے سے عابدوں ، زاہدوں سے دلی حسد اور بغض ہوگا اسلئے ان کا کہنا نہیں مانیں گے ۔اللہ اکبر ! یہ اس زمانہ کا حال ہے جو زمانہ نبوت سے بہت قریب تھا تو اب یہاں سے قیاس فرمالیجئے کہ آج کل کیا حال ہے حدیث ِ صحیح میں آیا ہے کہ جو دن آتا ہے اس کے بعد کا دن اس سے براتر ہوتا ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب لایا تی زمان۔۔۔الخ، الحدیث۷۰۶۸، ج۴، ص۴۳۳)
اللہ تَعَالٰی زمانہ کے حوادث سے محفوظ رکھے آمین ۔