تلاوتِ قرآن کریم کی چاشنی
حضرت سیدنا صالح مر ی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں، ایک مرتبہ حضرت سیدنامالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار میرے پاس آئے اور فرمانے لگے:” کل صبح فلاں جگہ پہنچ جانا، میرے کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ جائیں گے، پھر ہم حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہسے ملاقات کے لئے چلیں گے۔” میں نے کہا:” ٹھیک ہے ،میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچ جاؤں گا۔” جب میں صبح اس جگہ پہنچا جہاں کا مجھے کہا گیا تھا تو حضرت سیدنامالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار مجھ سے پہلے ہی وہاں موجود تھے اور ان کے ساتھ حضرت سیدنا محمد بن واسع ، حضرت سیدنا ثابت بنائی اور حضرت سیدنا حبیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم بھی موجود تھے۔ میں نے ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر دل میں کہا :”اللہ عزوجل کی قسم! آج کا دن بہت خوش کن ہوگا۔” پھر ہم سب حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف چل دیئے۔ حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے گھر میں عبادت کے لئے ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ” بصرہ شہر” میں صرف نمازِ جمعہ کے لئے تشریف لاتے اور نماز کے بعد فوراً ہی واپس تشریف لے جاتے ۔
حضرت سیدنا صالح مری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہفرماتے ہیں:” ہم ایک انتہائی خوبصورت جگہ سے گزرے تو حضرت سیدنا مالک بن دینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفارنے فرمایا: ”اے ثابت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !اس جگہ نماز پڑھ لو، کل بر وزِ قیامت یہ جگہ تمہاری گواہی دے گی۔” پھر ہم حضرت سیدنا ابو جہیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر پہنچے اور ان کے متعلق پوچھا تو پتاچلا کہ وہ نماز پڑھنے گئے ہیں ، ہم ان کا انتظار کرنے لگے ،کچھ ہی دیر بعد حضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لائے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت غمزدہ ،پر یشان حال اور بہت کمزور تھے، ایسا لگتاتھا جیسے ابھی قبر سے نکل کر آرہے ہوں ۔ پھر انہوں نے مختصر سی نماز پڑھی اور نہایت غمگین حالت میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ان سے مصافحہ کرنے کے لئے سب سے پہلے حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ گئے اور انہوں نے سلام کیا ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا اور پوچھا:” تم کون ہو؟ میں تمہاری آواز نہیں پہچان پایا۔”حضرت سیدنا محمد بن واسع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کی :” میں بصرہ سے آیا ہوں۔” پوچھا:” تمہارا نام کیا ہے؟”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا:” میرا نام محمد بن واسع ہے ۔” یہ سن کر فرمانے لگے:” مرحبا ،مرحبا! کیاتم ہی محمد بن واسع ہو جن کے متعلق بصرہ والے یہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ فضیلت والے یہی ہیں ،خوش آمدید بیٹھ جائیے۔” پھر حضرت سیدنا ثابت بنائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سلام کیا، ان سے بھی نام پوچھا تو انہوں نے بتایا: ” میرانام ثابت بنائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے۔” یہ سن کر فرمانے لگے:” مرحبا، اے ثابت !کیا تمہار ے ہی متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ سب سے زیاد ہ لمبی نماز پڑھنے والے ثابت بنائی ہیں ،خوش آمدید! آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) تشریف رکھیں ۔”
پھر حضرت سیدنا حبیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سلام کے لئے حاضر ہوئے۔ ان سے پوچھا:” تمہارا نام کیا ہے؟” عرض کی:
”حبیب ۔”فرمایا:” کیا تم ہی وہ حبیب ہو جن کے متعلق مشہور ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرتے ، خوش آمدید! تشریف رکھئے ۔”پھر حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار نے سلام کیا اور جب اپنا نام بتایا تو فرمایا:”مرحبا !مرحبا! اے مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم سب سے زیادہ مجاہد ہ کرنے والے ہو۔” پھر انہیں بھی اپنے پاس بٹھا لیا۔
پھر میں سلام کے لئے حاضر ہوا ۔جب میرا نام پوچھاتو میں نے اپنا نام بتا یا، فرمانے لگے:” اچھا! تمہارے ہی متعلق مشہور ہے کہ تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو ، میری بڑی خواہش تھی کہ تم سے قرآن سنوں: آج مجھے قرآن سناؤ ۔” حکم ملتے ہی میں نے تلاوت شروع کردی۔ خدا عزوجل کی قسم! ابھی میں تَعَوُّذْ(یعنی اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم) بھی مکمل نہ کر پایا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ جب افاقہ ہوا تو فرمانے لگے:” اے صالح (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!مجھے قرآن سناؤ۔ ”چنانچہ میں نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی:
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿23﴾
ترجمہ کنزالایمان:اور جو کچھ انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔(پ19،الفرقان:23)
جیسے ہی انہوں نے یہ آیت سنی ایک چیخ ماری اور پھر ان کے گلے سے عجیب وغریب آواز آنے لگی اور تڑپنے لگے پھر یکدم ساکت ہوگئے۔ ہم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ان کی روح قفس عنصری سے پر وا ز کر چکی تھی ، ہم نے لوگو ں سے پوچھا : ”کیا ان کے گھر والوں میں سے کوئی موجود ہے؟” لوگو ں نے بتایا:” ایک بوڑھی عورت ان کی خدمت کرتی ہے۔” جب اس بوڑھی عورت کو بلایا گیا تو اس نے پوچھا:” کس طرح ان کا انتقال ہوا؟” ہم نے بتایا:” ان کے سامنے قرآن کی ایک آیت پڑھی گئی جسے سنتے ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔”
اُس عورت نے پوچھا:” تلاوت کس نے کی تھی ؟شاید! حضرت سیدنا صالح قاری علیہ رحمۃاللہ الباری نے تلاوت کی ہو گی۔” ہم نے کہا:” جی ہاں! تلاوت تو حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی نے کی ہے لیکن تم انہیں کس طر ح جانتی ہو ؟”کہنے لگی: ”میں انہیں جانتی تو نہیں مگر حضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرے سامنے حضرت سیدنا صالح قاری علیہ رحمۃاللہ الباری نے تلاوت کی تو میں ان کی تلاوت سنتے ہی مرجاؤں گا ۔”
پھر اس عورت نے کہا:” خدا عزوجل کی قسم! حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (کی پردرد آواز)نے ہمارے حبیب کو قتل کرڈالا ۔” یہ کہہ کر وہ عورت رونے لگی۔ پھرہم سب نے مل کرحضرت سیدنا ابو جہیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تجہیز وتکفین کی۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)