دِلوں کو یہی زندگی بخشتا ہے ترا دردِ اُلفت ہی دل کی دَوا ہے
دِلوں کو یہی زندگی بخشتا ہے
ترا دردِ اُلفت ہی دل کی دَوا ہے
گلستانِ دنیا کا کیا ذِکر آقا
کہ طوطی ترا سدرہ پر بولتا ہے
مریضِ مَعاصی کو لے چل مَدینہ
مَدینہ ہی عصیاں کا دارُالشفا ہے
جو واصل ہے تم تک تو واصل ہے حق تک
جو تم سے پھرا ہے وہ حق سے پھرا ہے
نماز اور روزے زکوٰۃ اور حج سب
ہیں مقبول سب جب تمہاری وِلا ہے
عمل سب اَکارَت تمہارے عدو کے
کہ ارشادِ ربی جَعَلْنَا ھَبَا ہے
محبت تمہاری محبت خدا کی
عداوَت تمہاری خدا سے دَغا ہے
وہ کیسی ہی جھیلے مشقت ادا میں
ادا کچھ نہیں ہے وہ سب کچھ قضا ہے
محبت تمہاری ہے اِیمان کی جاں
اگر یہ نہیں ہے تو اِیماں ہوا ہے
کرے لاکھ دَعوائے ایمان دشمن
منافق کا دَعوائے اِیماں دَغا ہے
خدا پر بھی اِیماں اسی کو ہے حاصل
جسے جانِ ایمان تجھ سے وِلا ہے
خدا کے یہاں ہے سر اَفراز اتنا
تری بارگہ میں جو جتنا جھکا ہے
اَغِثْنَا حَبِیْبَ الْاِلٰہِ اَغِثْنَا
تباہی میں بیڑا ہمارا پھنسا ہے
یہ سچ ہے بداَعمالیوں ہی نے اپنی
ہمیں روزِ بد یہ دکھایا شہا ہے
بہت نام لیوا ہوئے قتل و غارَت
خبر کیا نہیں تم سے کیا کچھ چھپا ہے
تصوّر میں بھی جو نہ تھے وہ مظالم
ہوئے اور ابھی تک وہی سلسلہ ہے
نہ دیکھا تھا جو چشمِِ َگردُوں نے اب تک
ترے بندوں نے وہ ستم اَب سہا ہے
چھنے مال و دولت ہوئے قتل و غارَت
ہزاروں کا ناموس لوٹا گیا ہے
لکھوکھا کئے ٹھنڈے سَفَّاکیوں سے
مگر ظالم اب تک بھی گرما رہا ہے
جو حق چاہتا ہے یہ وہ چاہتے ہیں
جو یہ چاہتے ہیں وہ حق چاہتا ہے
مگر مولیٰ اب تو سزا پاچکے ہم
کرم کیجئے اب یہی التجا ہے
نکوکار بندے ہی کیا ہیں تمہارے
یہ بدکار بھی آپ ہی کا شہا ہے
نہ کیجے نظر اس کی بدکاریوں پر
کرم کیجئے جو ِشعار آپ کا ہے
جو پہلے تھے آقا غلام آج ٹھہرے
غلام اپنے آقا کا آقا بنا ہے
وَ مَا یَنْطِقُ عَنْ ھَوَی سے ہے روشن
زبانِ مقدس پہ حق بولتا ہے
انہیں کی رَسائی ہے ذاتِ خدا تک
سوا ان کے کوئی بھی اس تک رَسا ہے
دوعالم کو کردوں میں اس سر پہ صدقے
نثارِ مَدینہ جو سر ہوچکا ہے
اگرچہ ہے مکہ کی عظمت مسلم
مگر میرا دل طیبہ ہی پر فدا ہے
ہے معراجِ قسمت حضوری یہاں کی
ہمیں آپ کا روضہ عرشِ علا ہے
نکو کار ہے آپ کا بد ہے کس کا
وہ بھی آپ کا ہے جو بد ہے برا ہے
کہاں تک سہیں ہم مخالف کے طعنے
خبر لیجئے وقت صبر آزما ہے
مقدر کے تم ہو مقدر تمہارا
جو مرضی تمہاری وہ قدر و قضا ہے
خدا کی جو مرضی وہ مرضی تمہاری
جو مرضی تمہاری خدا کی رضا ہے
ہے اللّٰہ کے ہاتھ میں ہاتھ اس کا
ترے ہاتھ میں ہاتھ جس نے دیا ہے
اَنَا قَاسِمٌ سے ہے روشن جہاں میں
جسے جو ملا وہ تمہارا دیا ہے
حبیبِ خدا ہے یہاں جلوہ فرما
یہ گنبد نہیں برجِ عرشِ خدا ہے
بتقدیر قادِر مقدر وہ پایا
کہ مرضی ہی گویا قدر اور قضا ہے
یہاں بھیک لینے نہ کیوں آئے دنیا
شہنشاہِ عالم کی دولت َسرا ہے
خدا ہی کی قدر اس نے ہر گز نہ جانی
ترے رتبے میں جس کو چون و چرا ہے
نہ اَہلِ نظر کا بنے سجدہ گہ کیوں
جہاں نقشِ پائے حبیبِ خدا ہے
اسی در کا محتاج ہے سارا عالم
اسی در سے پلتا پلے گا پلا ہے
یہ کون و مکاں یہ زمین و زماں سب
بنے تیری خاطر تو وَجہِ بِنا ہے
بنایا تجھے ایسا خالق نے تیرے
کہ ذاتِ خدا کا تو ہی آئینہ ہے
بنایا تمہیں اپنا مَظہَر خدا نے
جہانوں کو مَظہَر تمہارا کیا ہے
یہ چاہت ہے محبوب تیری خدا کو
جو تو چاہے وہ بھی وہی چاہتا ہے
کچھ ایسا سنوارا ہے تجھ کو خدا نے
کہ تو ہی خدائی کا دولہا بنا ہے
تمہارے ہی دم کی ہیں ساری بہاریں
تمہارے ہی دم سے یہ نشوونما ہے
تمہارا ہی رنگ اور تمہاری ہی بو تو
ہے ان پھولوں میں ورنہ پھر اور کیا ہے
چمن ہونا سیراب و شاداب ہونا
یہ پھل پھول لگنا تمہاری عطا ہے
اسی دَم سے آباد سارے جہاں ہیں
اسی دَم سے سارا وجود و بِنا ہے
ہے زیرِ نگیں تیرے مُلکِ الٰہی
تو ہی شاہ والائے قصرِ دَنیٰ ہے
تو وہ تاجوَر ہے کہ تاجِ رَفَعْنَا
ترے فرقِ اَقدس پہ حق نے دَھرا ہے
مہ و خور چمکتے دمکتے ہی نہ یوں
یہ تیری چمک ہے یہ تیری ضیا ہے
ستاروں کی آنکھوں میں ہے نور کس کا
تمہاری چمک ہے تمہاری ضیا ہے
( یہ نعت پاک ناتمام ہے)
امانت رسول رضوی غُفِرَلَہ