شریعت و تجارت
شریعت و تجارت
(ابو حارث عطاری)
منافع حاصل کرنے کی نیت سے مال کی خرید و فروخت کرنا ”تجارت“ ہے۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد روزی کمانے کے لیے ”تجارت“ کو ذریعہ بناتی ہے اور ہمارے بزرگانِ دین نے بھی اس شعبے کو نوازا ہے جیسے حضرت سَیِّدُنا ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، حضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، حضرت سَیِّدُنا عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وغیرہ۔ معاملاتِ زندگی میں ”تجارت“ انتہائی اہمیت رکھتی ہے، شریعت نے جہاں دیگر شعبوں کے لیے قوانین بنائے ہیں وہیں ”تجارت“ کے اصول بھی بتائے ہیں، جو جی میں آئے کیے جانا مسلمان تاجر کا شیوہ نہیں لیکن آج مسلمانوں کی ایک تعداد بے شمار تجارتی خرابیوں کا شکار ہے، وہ زیادہ منافع کمانے کی ہوَس میں کسی بھی غیرشرعی و غیر قانونی کام سے نہیں رکتی۔ ”تجارت“ میں جھوٹ، رشوت، خیانت، دھوکہ، جھوٹی قسم اور ملاوٹ ایک عام سی بات ہوچکی ہے۔
آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے معاملات یعنی خرید و فروخت وغیرہ کی درستی کا اہتمام نہیں کرتی حالانکہ کاروبار کی پاکی اور معاملات کی ستھرائی کاشعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کا تعلق بیک وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حق کے ساتھ بھی ہے اور بندوں کے حقوق سے بھی، اگر لین دین میں خیانت واقع ہوجائے اور حصولِ رزق کے لیے ناجائز ذرائع کو اختیار کیا جائے تو اس طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بھی نافرمانی ہوگی اور کسی نہ کسی بندے کی حق تلفی بھی اور یہ بات دُگنا جرم قرار پائے گی۔
سچائی اور دیانتداری سے کام کرنے کا آخرت میں تو فائدہ ہے ہی، دنیا میں بھی اس کے بہتر نتائج نکلتے ہیں، لوگوں میں نیک نامی ہوتی ہے جس سے ”تجارت“ چمک اٹھتی ہے۔ آج دنیا بھر میں لوگ ان ممالک سے خریدنے میں دلچسپی لیتے ہیں جہاں سے صحیح مال صحیح وزن سے ملتا ہے اور جہاں سیب کی پیٹیوں کے نیچے آلو پیاز نکلیں یا پہلی تہ اعلیٰ درجہ کی نکلنے کے بعد نیچے سڑا ہوا مال نکلے وہاں کی معیشت کا جو انجام ہوتا ہے وہ سب سمجھ سکتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں عرض کی گئی: کون سی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟ ارشاد فرمایا: آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور اچھی خرید و فروخت (یعنی جس میں خیانت اور دھوکہ وغیرہ نہ ہو،بہارِ شریعت،ج 2،ص611)(معجمِ اوسط،ج 1ص581، حدیث: 2140)
آج ”تجارت“ میں خسارے اور منافع کی کمی کارونا رویا جاتا ہے حالانکہ دھوکے اور بد دیانتی سے حاصل کیے جانے والے مال میں کبھی بھی برکت نہیں ہوسکتی۔ حدیث شریف میں ہے:”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تاجر (دنیا کے) دونوں کونوں تک پہنچے گا لیکن اسے نفع حاصل نہیں ہوگا۔“(معجمِ کبیر،ج 9،ص297، حدیث: 9490)
حضرت علامہ محمد بن عبد الرسول برزنجی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہ (تجارت میں نفع نہ ہونا) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ (قربِ قیامت) تاجروں میں دھوکہ دہی اور جھوٹ کا غلبہ ہوگا جس کی وجہ سے ”تجارت“ میں برکت نہ ہوگی۔(الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص 112)
جو کام بھی کیا جائے بڑے سلیقے، امانتداری، ہنر مندی اور شریعت کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا جائے، جو چیز بنائیں اس میں پختگی اور صفائی دونوں کا پورا پورا خیال رکھیں۔ بے دلی اور بے احتیاطی سے کوئی کام کرنا مسلمان کو زیبا نہیں۔ اگر ہم اس طریقے کو اپنائیں تو ہماری ”تجارت“ کو چار چاند لگ جائیں، ہر منڈی میں ہماری مصنوعات کی مانگ بڑھ جائے، ہماری ہنر مندی اور فنی مہارت کی دھاک بیٹھ جائے اور ساتھ ہی ساتھ ہماری معاشی حالت بھی قابلِ رشک ہوجائے۔
یاد رکھئے! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا پانے کے لیے، سچا مسلمان بننے اور دین و دنیا میں کامیاب و کامران رہنے کے لیے جیسے نماز روزے کی پابندی ضروری ہے، ایسے ہی معاملات کی درستی اور ذرائع آمدنی کی صحت وپاکی بھی نہایت ضروری ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم کو شریعت کے مطابق ”تجارت“ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ