قبر جنت کا باغ یا جہنم کا گڑھا ہے:
قبر جنت کا باغ یا جہنم کا گڑھا ہے:
حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب ،حبیب ِ لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے کچھ لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا توارشاد فرمایا:”اگر تم لذتوں کو ختم کرنے والی (موت) کو یاد کرتے تواس سے غافل ہو جاتے
جو میں دیکھ رہاہوں (یعنی ہنسنے سے)۔”پھرارشاد فرمایا:”لذَّات کوکاٹنے والی (موت)کو کثرت سے یاد کرو۔ اوربے شک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔”
(المعجم الاوسط، الحدیث۶۹۱، ج۱، ص۲0۴) (جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ ، باب حدیث اکثروا من۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۴۶0،ص۱۸۹۹”یضحکون” بدلہ ”یکتشرون”)
سکراتِ موت :
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیِّدُناکعبُ الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا: ”اے کعب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! ہمیں موت کے متعلق بتائیے۔”توحضرت سیِّدُناکعب الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ”اے امیر المؤمنین(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! موت ایک ایسی کانٹے دار ٹہنی کی مانند ہے کہ جس کوکسی آدمی کے پیٹ میں داخل کیا جائے اور ہر کانٹا ایک ایک رگ میں پیوست ہو جائے پھر کوئی طاقتورشخص اس ٹہنی کو اپنی پوری طاقت سے کھینچے تواس ٹہنی کی زد میں آنے والی ہر چیز کٹ جائے اور جوزد میں نہ آئے وہ بچ جائے۔”
(احیاء علوم الدین ،کتاب ذکر الموت وما بعد ہ،الباب الثالث: فی سکرات الموت۔۔۔۔۔۔الخ ،ج۵ ، ص۲۱0)
حضرت سیِّدُناعبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے والد ِ محترم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے: ”مجھے مرنے والے انسان پر تعجب ہوتا ہے کہ عقل اور زبا ن ہونے کے باوجود وہ کیوں موت اور اس کی کیفیت بیان نہیں کرتا۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میرے والد ِ محترم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وقتِ وصال قریب آیاتومیں نے عرض کی: ”اے بابا جان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! آپ توایسے ایسے فرمایا کرتے تھے۔”تو انہوں نے ارشادفرمایا : ”اے میرے بیٹے! موت اس سے زیادہ سخت ہے کہ اس کو بیان کیا جائے پھر بھی میں کچھ بیان کئے دیتاہوں۔ اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! گویا میرے کندھوں پررَضوَی(یَنْبُع کا ایک مشہور پہاڑ) اور تہامہ کے پہاڑ رکھ دیئے گئے ہیں اور گویامیری روح سوئی کے ناکے سے نکالی جارہی ہے ،گویا میرے پیٹ میں ایک کانٹے دار ٹہنی ہے اورگویاآسمان زمین سے مل گیا ہے اور میں ان دونوں کے درمیان ہوں۔”
(المستدرک،کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب وصف الموت فی حالۃ النزع، الحدیث۵۹۶۹،ج۴،ص۵۶۹۔الطبقات الکبری لابن سعد،الرقم۴۴۶ عمروبن العاص، ج۴، ص۱۹۶)