قیامِ عرفات میں حکمت:
قیامِ عرفات میں حکمت:
مزدلفہ سے کنکریاں لینے اور عرفہ میں ٹھہرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس میں صاحب ِ علم ومعرفت کے لئے پوشیدہ باتیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا بندہ عرض کرتا ہے : میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! میں نے گناہوں اور خطاؤں کی کنکریاں اُٹھا ئیں اور تیرے حکم پر عمل کرتے ہوئے جمروں کو کنکریاں ماریں۔ بے شک تو کرم وبخشش والا ہے۔
مشعرِحرام کے پاس ذکر کی حکمت اور اجر ِ عظیم کے متعلق گویا اللہ عزَّوَجَلَّ فرما رہاہے: ”تم میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا، جومجھے اکیلا یاد کرے میں بھی اسے اکیلا یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی اجتماع میں یاد کرے تومیں اُسے اس سے بہتر اجتماع میں یاد کرتا ہوں۔ پس جب تم مشعرِ حرام کے پاس مجھے یاد کرتے ہو تو میں تمہیں معزز فرشتوں میں یاد کرتا ہوں اور تمہارے لئے انتقام کے بدلے امان کی مہرلگا دیتا ہوں۔”
مِنٰی میں سرمنڈوانے میں ایسی حکمت ہے جس سے بندے کی تمام اُمیدیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بیداری اور نصیحت ہے جسے صرف عالم ہی سمجھ سکتاہے،کیونکہ حاجی جب عر فہ میں ٹھہرتا ہے ،مشعرِحرام کے پاس اللہ عزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتا، مِنٰی میں قربانی کر کے حلق کرواتا اور اپنے بدن کو میل کچیل اور گناہوں سے پاک و صاف کرتا ہے تو اللہ عزَّوَجَلَّ اس کے لئے ثواب لکھ دیتا، درجے بڑھا دیتا اور جہنم سے پناہ دے دیتاہے۔اور بروزِ قیامت اس کے ہر بال کے عوض ایک نوربنائے گا اوراسے امن کا پروانہ عطا فرمائے گا۔ جیساکہ اللہ عزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:
(4) مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمْ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ
ترجمۂ کنزالایمان :اپنے سروں کے بال منڈاتے یا ترشواتے بے خوف۔ (پ26، الفتح: 27)
طواف میں کئی حکمتیں اور لطیف اشارے ہیں، بیت اللہ شریف کا طواف کرنے والا گڑگڑاتے اوردعا کرتے وقت زبانِ حال سے کہتا ہے: ”اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ!توہی مقصودہے، توہی مرتبہ کمال تک پہنچانے والا معبود ِحقیقی ہے۔ میں تمام لوگوں کے ساتھ تیری بارگاہ میں حاضرہوا، تیرے گھر کا طواف کیا اور تیری رحمت کے دروازے پر جود وکرم کی امید لئے کھڑا ہوں اور تو خود اپنے خلیل حضرتِ سیدنا ابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کو اپنی لاریب کتاب میں فرما چکاہے:
(5) وَّ طَہِّرْ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الْقَآئِمِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ ﴿26﴾
ترجمۂ کنزالایمان :اور میرا گھر ستھرا رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے ۔(پ 17،الحج:26)
وقوفِ عرفات میں حکمت اور انوکھے معانی ہیں، بلاشبہ اس میں بندے کے لئے تنبیہ ہے اور یہ کہ بندے بروزِ قیامت اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ننگے پاؤں، ننگے بدن اوربرہنہ سر حسرت و ندامت کے قدموں پر کھڑے ہوں گے، گریہ و زاری کرتے ہوں گے اور اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ سے اس طرح دعا کرتے ہوں گے جس طرح ایک ذلیل غلام دعاکرتاہے۔
سبحان اللہ عَزَّوَجَلَّ !ان لوگوں کو دیکھوجنہیں ان کے مولاعَزَّوَجَلَّ نے اپنے گھر کی طرف بلایا تو انہوں نے وجدو شوق کے عالم میں اس کی دعوت پرلبیک کہا اور تصدیق کے قدموں پر اس کی طرف پیدل چل پڑے، اور ہر دُبلی اُونٹنی پر دور دور سے حاضر ہوگئے ۔
حضرتِ سیِّدُنا علی بن مُوَفَّق ْرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے بیت اللہ کا حج کیا کعبہ مشرفہ کے گرد سات چکر لگائے ، حجرِ اسود کو بوسہ دیا، دو رکعت نماز پڑھی، کعبہ کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی اور روتے ہوئے عرض کی: ”میں نے اس بیت اللہ کے کتنے چکر لگائے لیکن معلوم نہیں کہ قبول ہوئے یا نہیں۔”پھر مجھ پر ہلکی سی نیند غا لب آگئی۔ میں سونے او رجاگنے کی درمیانی حالت
میں تھا کہ میں نے ایک غیبی آواز سُنی: ”اے علی بن مُوَفَّق ْ!ہم نے تیری بات سن لی ہے ۔کیاتو اپنے گھر میں اسی کو نہیں بلاتا جس سے تو محبت کرتا ہے ۔
منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا بکر اورحضرت سیِّدُنا مطرّف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما نے عرفات میں وقوف کیا۔جب حاجیوں نے گریہ وزاری اور چیخ وپکار شروع کی توحضرتِ سیِّدُنا بکررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ رو رو کر کہنے لگے: ” یہ کتنا بڑا مرتبہ ہے، اے کاش! میں ان لوگوں میں سے ہوتا۔”اور حضرتِ سیِّدُنا مطرف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس حال میں عرض کی کہ آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو چکا تھا: ”اے اللہ عزَّوَجَلَّ! میری (نافرمانیوں کی) وجہ سے ان کو مَردودنہ کرنا۔