مقامِ فنا:
مقامِ فنا:
حضرتِ سیِّدُنا ابو بکرشبلی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک پہاڑ پر ریحانہ عابدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کویہ شعر پڑھتے سنا:
؎ اَحْضَرْتَنِیْ فِیْکَ وَلٰکِنْ غَیْبَتِیْ فِیْ التَّجَلِّیْ
ترجمہ: (اے میرے رب!) تو نے مجھے اپنی بارگاہ میں حضوری عطا فرمائی مگر میں تیری تجلیات میں گم ہوگئی۔
میں نے اسے دائیں بائیں تلاش کیا تو نظر آئی میں نے سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا: ”اے ریحانہ!” اس نے جواب دیا: ”اے شبلی(علیہ رحمۃ اللہ القوی) !میں حاضر ہوں۔ ” میں نے پوچھا :”کس کو ڈھونڈ رہی ہو؟” تو اس نے
جواب دیا: ”ریحانہ کو۔”میں نے حیران ہوکراس سے پوچھا:”کیاتو ریحانہ نہیں؟”اس نے جواب دیا: ” اے شبلی(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! کیوں نہیں، مگرجب سے مجھے اللہ عزَّوَجَلَّ کا قرب ملا ہے میں قید ہوگئی ہوں اورمجھے یہ بھی خبر نہیں کہ میں کہا ں ہوں؟ میں اپنے آپ سے غائب ہوچکی اور اپنے آپ کو بھول چکی ہوں، اور اب مسافروں سے اپنے متعلق پوچھتی رہتی ہوں مگر میں نے کوئی شخص ایسا نہ پایا جو مجھے میرے بارے ميں بتادے۔” یہ سن کرمیں نے اُسے کہا: ”اب میں بھی تیری طرف رجوع کرتا ہوں کیونکہ تجھ پر نشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں۔” تو وہ کہنے لگی: ”اے شبلی(علیہ رحمۃ اللہ القوی)! میں نے اس سلسلے میں اپنے عناصر سے پوچھا تو کسی کو اپنا مدد گار نہ پا یا۔ میں نے حواس سے پوچھا توان کو بغیرجامِ محبت پئے مدہوش پایا۔ اپنی فہم سے پوچھا تو اس نے وہم کی طرف میری رہنمائی کی۔میں نے اپنے راز سے پوچھا تو اس نے کہا میں نہیں جانتا۔میں نے دل سے پوچھا تواس نے بھی مجھے میری مرادتک نہ پہنچایا۔ اپنے قلب سے پوچھا تو وہ گہری سوچ میں ڈوب گیاپھر کہنے لگا:مجھے اجازت نہیں، میں نہ تو بتاسکتاہوں اور نہ ہی ظاہر کر سکتا ہوں۔”
پھر ریحانہ عابدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کہنے لگی: ”اے شبلی (علیہ رحمۃ اللہ القوی)!میں نے ہر زندہ سے کہا کہ مجھے میری ذات تک پہنچادے اور مجھ پرمیری رہنمائی کردے لیکن کوئی بھی میری باتیں نہ سمجھ سکا، اے شبلی(علیہ رحمۃ اللہ القوی)! اگرتجھے میرا ٹھکانہ معلوم ہے تو میرے ترجمان کو اِدھر لے آ۔” میں نے اسے کہا:”تیرا ٹھکانہ رحیم و رحمن عَزَّوَجَلَّ کے قُرب میں ہے۔”یہ سنتے ہی اس نے ایک چیخ ماری اوراس کے بعد لمبا سانس لیا۔ میں نے اسے حرکت دی تو اس کی روح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کرچکی تھی۔ میں نے اسے ایک چٹان کے سہارے لٹایا اور خود اس امید پر وسیع وعریض میدان میں چلا گیاتاکہ کوئی ایسا شخص پاؤں جو اس کی تجہیزوتکفین پرمیری مدد کرے مگر مجھے کوئی نہ ملا۔ میں واپس آیا تو اس کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں گئی۔ہاں!میں نے وہاں ایک نور دیکھاجو شعاعیں دے رہا تھا اوربجلی چمک رہی تھی۔میں دل میں کہنے لگا: کاش!میں جان لیتاکہ ا س نیک بندی کے ساتھ کیا ہواتومجھے ندادی گئی: ”اے شبلی! ہم جس کو اس کی زندگی میں اس سے لے لیتے ہیں تو موت کے بعد بھی اسے لوگوں کی آنکھوں سے چھپا دیتے ہیں۔”
حضرتِ سیِّدُناشبلی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں، میں نے اسی رات اس کو خواب میں دیکھا اور پوچھا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟” اس نے جواب دیا: ”اے نوجوان! قید ختم ہوگئی ،میں نے اپنی مراد اور نعمتیں پا لیں اورمیرا مقصد پورا ہو گیا۔ اگر تم بھی ہمیشہ کی عزت چاہتے ہو تومیری طرح موت کوگلے لگالو۔”