ہم اپنی حسرتِ دِل کو مٹانے آئے ہیں ہم اپنی دِل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں
ہم اپنی حسرتِ دِل کو مٹانے آئے ہیں
ہم اپنی دِل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں
دِلِ حزیں کو تسلی دِلانے آئے ہیں
غمِ فراق کو دِل سے مٹانے آئے ہیں
کریم ہیں وہ نگاہِ کرم سے دیکھیں گے
ہے داغ داغ دِل اپنا دِکھانے آئے ہیں
غم و اَلم یہ مٹادیں گے شاد کردیں گے
ہم اپنے غم کا قَضْیَہ چکانے آئے ہیں
حضور بہرِ خدا داستانِ غم سن لیں
غمِ فراق کا قصہ سنانے آئے ہیں
نگاہِ لطف و کرم ہوگی اور پھر ہوگی
کہ زَخمِ دِل پہ یہ مرہم لگانے آئے ہیں
فقیر آپ کے دَر کے ہیں ہم کہاں جائیں
تمہارے کوچہ میں دُھونی رَمانے آئے ہیں
مَدینہ ہم سے فقیر آکے لوٹ جائیں گے
درِ حضور پہ بستر جمانے آئے ہیں
خدا نے غیب دیا ہے انہیں ہے سب روشن
جو خطرے دل ہی میں چھپنے چھپانے آئے ہیں
کھلے گی میرے بھی دل کی گلی کہ جانِ جناں
چمن میں پھول کرم کے کھلانے آئے ہیں
کتابِ حضرتِ موسیٰ میں وَصف ہیں ان کے
کتابِ عیسیٰ میں ان کے فسانے آئے ہیں
انہیں کی نعت کے نغمے زَبور سے سن لو
زبانِ قرآں پہ اُن کے ترانے آئے ہیں
دَبا نہیں وہ فلک سے بلند و بالا ہے
تہِ زمیں جسے سروَر دَبانے آئے ہیں
نصیب جاگ اُٹھا اس کا چین سے سویا
وہ جس کو قبر میں سروَر ُسلانے آئے ہیں
عجب کرم ہے کہ خود مجرموں کے حامی ہیں
گناہگاروں کی بخشش کرانے آئے ہیں
سبھی رُسل نے کہا اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ
اَنَا لَھَا کا یہ مژدہ سنانے آئے ہیں
زبانِ اَنبیا پر آج نفسی نفسی ہے
مگر حضور شفاعت کی ٹھانے آئے ہیں
کسی غریب کے پلے پہ وقتِ وَزْنِ عمل
بھرم کرم سے یہ اس کا بنانے آئے ہیں
وہ پرچہ جس میں لکھا تھا دُرود اس نے کبھی
یہ اس سے نیکیاں اس کی بڑھانے آئے ہیں
خدا سے کرتے ہوئے عرض رَبِّ سَلِّمْہٗ
صراط پر یہ کسی کو چلانے آئے ہیں
زباں جو دیکھے ہے سوکھی ہوئی تو بحرِ کرم
کسی کو حوض پہ شربت پلانے آئے ہیں
ہوا ہے حکم کسی کو کہ نار میں جائے
یہ سن کے دوڑ کے اس کو چھڑانے آئے ہیں
الٰہی دُور ہوں نجدی حجاز سے جلدی
حجازیوں کو یہ موذی ستانے آئے ہیں
نصیب تیرا چمک اُٹھا دیکھ تو نوریؔ
عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں