ہنسنے والا مُخلص نوجوان :
ہنسنے والا مُخلص نوجوان :
حضرتِ سیِّدُنایوسف بن حسین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرتِ سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی کی بارگاہ میں حاضر تھا اورآپ ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کوبیان فرما رہے تھے۔سب لوگ رو رہے تھے مگر ایک نوجوان ہنس رہا تھا۔ حضرتِ سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی نے اس سے پوچھا: ”اے نوجوان! تجھے کیا ہے؟ لوگ رورہے ہیں اور تم ہنس رہے ہو؟” تو اس نے جواب دیا:”لوگ یا تو جہنم کے خوف سے عبادت کرتے ہیں اور نجات کو ہی اپنا اجر سمجھتے ہیں یا جنت میں جانے کے لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ اس کے باغوں میں رہیں اور اس کی نہروں سے پئیں۔ لیکن میرا ٹھکانہ نہ توجنت ہے اورنہ ہی جہنم۔میں اپنی محبت کا بدلہ نہیں چاہتا۔” حضرتِ سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی نے دوبارہ اس سے پوچھا:”اگر اس نے تمہیں دھتکار دیا تو کیا کروگے؟”تواس نے چند اشعار سنائے جن کا مفہوم یہ ہے: ”جب میں نے محبت کے باوجود وصال حاصل نہ کیاتو دوزخ میں ٹھکانا بنالوں گا۔ پھر جب مجھے صبح و شام عذاب ہو گا تو میری چیخ و پکار سے اہلِ دوزخ بھی تنگ آجائیں گے ۔جب میں وصالِ یار پانے کی کوئی راہ نہ پا سکا تو گنہگاروں کی ٹولیاں بھی مجھ پر گریہ وزاری کریں گی۔ اے میرے مالک عَزَّوَجَلَّ! چاہے تو مجھے عذاب میں مبتلا کر دے یاآزاد کر د ے، مجھے تیری مرضی قبول ہے۔اگر میں اپنے دعوۂ محبت میں سچا ہوں تو محض اپنے کرم سے میری حالت کو تبدیل کر دے اور اگر میرا دعوۂ محبت جھوٹا ہے تومجھے اس کی سزا میں طویل عذاب سے دوچار کردے ۔”جب وہ چپ ہوا تو ایک غیبی آواز آئی: ”اے ذوالنون! مُخلصین کی اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ایسی محبت ہوتی ہے کہ وہ خوشحالی وتنگدستی میں بھی اس سے محبت کرتے ، نعمتوں اور مصیبتوں پر بھی اس کا شکر ادا کرتے ہیں ۔”
نیک لوگ اس لئے سعادت مند ہوگئے کیونکہ انہوں نے دنیا کو چھوڑ کر اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کو مقصود بنایا، جب انہوں نے اس مقصد میں رغبت اختیار کی توانہیں اس تک پہنچنے سے بیوی بچوں کی محبت نہ روک سکی، انہوں نے اس راہ میں آنے والی مشقت کو شہد سے زیادہ میٹھا پایا، اُن کے لئے شہد بھی ان تکالیف جیسا میٹھا نہیں،وہ ہمیشہ اپنے محبوب کی محبت میں مصائب جَھیلتے رہے پھربھی قرب کی طلب سے پیچھے نہ ہٹے،اور ان کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ جب وہ کسی شہر سے کوچ کرتے ہیں تووہ شہر بھی اُن کے فراق میں آنسو بہاتاہے۔