اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر
ربّ عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرنے کا انوکھا طریقہ:
حضرتِ سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ” ایک دن میں ایک بازار سے گزرا تو میں نے چار آدمیوں کے کندھوں پر ایک جنازہ دیکھا، ان کے ساتھ اور کوئی نہ تھا۔ میں نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں ان کا پانچواں رفیق بن کر ضرور اجر وثواب حاصل کروں گا۔” جب وہ قبرستان پہنچے تو میں نے کہا: ”اے لوگو! اس شخص کا ولی کہاں ہے ؟ جوکہ اس پر نمازِ جنازہ پڑھے۔” تو انہوں نے جواب دیا: ”اے محترم بزرگ! ہم میں سے کوئی اس کونہیں جانتا۔” پھر میں آگے بڑھا اوراس کی
نمازِ جنا زہ پڑھائی۔ ہم نے اسے لحد میں اتار کر اس پر مٹی ڈال دی، جب انہوں نے لوٹنے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا: ”اس میت کا کیا معاملہ ہے؟” تو انہوں نے بتایا کہ”ہم اس کے متعلق کچھ نہیں جا نتے، ہاں! ایک عورت نے اس کو یہاں تک پہنچانے کے لئے ہمیں کرائے پر لیا اور وہ اب آنے ہی والی ہے۔ اتنے میں وہ عورت آگئی جب وہ روتے ہوئے اورپریشان دل کے ساتھ قبر کے قریب رُکی تواپنے چہرے سے پردہ ہٹایا، بال پھیلا ئے، اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے گریہ وزاری کرنے لگی۔ پھر اس نے دعامانگی اور بے ہوش ہو کر زمین پر گرگئی۔ کچھ دیر کے بعد جب ہوش آیا توہنسنے لگی۔
میں نے اس سے پوچھا: ”مجھے اپنے اور اس میت کے متعلق بتایئے!اتنا شدیدرونے کے بعد یہ ہنسنا کیسا؟” تواس نے مجھ سے پوچھا: ”آپ کون ہیں؟” میں نے جواب دیا: ”ذوالنون ۔” تو وہ کہنے لگی: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر آپ صالحین میں سے نہ ہوتے تو میں آپ کو کبھی نہ بتاتی، یہ میرابیٹا اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، یہ اپنی جوانی کو ضائع کرتااور فخریہ لباس پہنا کرتا، کوئی برائی ایسی نہیں جس کا اس نے ارتکاب نہ کیا ہو اور کوئی گناہ ایسا نہیں جسے کرنے کی اس نے کوشش نہ کی ہو۔ اس کے گناہوں کو جاننے والے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ نے اسے گناہوں کی سزا یہ دی کہ ایک دن اسے شدید درد ہوا، جو تین دن رہا، جب اس کو اپنی موت کایقین ہوگیا تو کہنے لگا: ”اے میری ماں! میں تجھے اللہ عزَّوَجَلَّ کا واسطہ دیتاہوں میری وصیت قبول کرنا، جب میں مرَ جاؤں تو میری موت کی خبر میرے دوستوں ، بھائیوں، گھر والوں اور پڑوسیوں میں سے کسی کو نہ دیناکیونکہ وہ میرے بُرے افعال، گناہوں کی کثرت، اور جہالت کی وجہ سے مجھ پر رحم نہیں کریں گے ۔پھر اس نے روتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
لِیْ ذُنُوْبٌ شَغَلَتْنِیْ
عَنْ صِیَامِیْ وَصَلَاتِیْ
تَرَکْتُ جِسْمِیْ عَلِیْلًا
مَاتَ مِنْ قَبْلِ وَفَاتِیْ
لَیْتَنِیْ تُبْتُ لِرَبِّیْ
مِنْ جَمِیْعِ السَّیِّئَاتِ
اَنَا عَبْدٌ یَا اِلٰھِیْ!
ھَآئِمٌ فِی الْفَلْوَاتِ
بَحُتْ جَھْرًا بِعُیُوْبِیْ
وَ ذُنُوْبِیْ قَاتِلَاتِیْ
قَدْ تَوَالَتْ سَیِّئَاتِیْ
وَ تَلَاشَتْ حَسَنَاتِیْ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔میرے گناہوں نے مجھے نمازروزے سے غافل کر دیا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے جسم کواتنا علیل وکمزور کردیا کہ وہ موت سے پہلے ہی مرچکاہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔کاش! میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں تمام گناہوں سے توبہ کر لیتا۔
(۴)۔۔۔۔۔۔اے میرے معبود عَزَّوَجَلَّ! وسیع بیابان میں تیر ا یہ بندہ حیرت زدہ ہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔میرے عیوب سب پر ظا ہر ہو گئے گنا ہو ں نے میری کمر توڑ ڈالی۔
(۶)۔۔۔۔۔۔میری برائیاں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور نیکیا ں بربادہو چکی ہیں۔
پھر وہ روتے ہوئے کہنے لگا: ”اے میری ماں!افسوس ہے اس پر کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نافرمانوں میں حد سے بڑھ گیا افسوس اس دل پر جسے میں سخت کرتا رہا، اے میری ماں! تجھے اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! جب میں مر جاؤں تو میرے رخسارکو زمین اور مٹی پر رکھ کر میرے دوسرے رخسار پر اپنا قدم رکھ دینا اور کہنا کہ یہ جزا ہے اس بندے کی جس نے اپنے مولیٰ کی نافرمانی ومخالفت کی، اس کے حکم کو ترک کیا، اپنی خواہش کے پیچھے چلا۔ جب آپ مجھے دفن کر لیں تو اپنے ہاتھوں کواللہ عزَّوَجَلَّ کی جناب میں بلند کرکے کہنا: ”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ رَضِیْتُ عَنْہ، فَارْضِ عَنْہ، ”یعنی ا ے اللہ عزَّوَجَلَّ میں اس سے را ضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔” جب یہ مرا تو میں نے اس کی تمام وصیتوں کو پوراکیا۔ اب جب میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک آواز سنائی دی: ”اے میری ماں!اب لوٹ جا، میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور اس حال میں آیا کہ وہ مجھ پر ناراض نہ تھا۔” جب میں نے یہ آواز سنی تو مسکرانے لگی۔”
حضرتِ سیِّدُنا منصوربن عمارعلیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں: ”جب بندے کی موت کا وقت قریب آتا ہے تومرنے والے کی حالت پانچ طرح کی ہوتی ہے: (۱)۔۔۔۔۔۔مال وارث کے لئے (۲)۔۔۔۔۔۔روح ملک الموت علیہ السلام کے لئے (۳)۔۔۔۔۔۔ گوشت کیڑوں کے لئے (۴)۔۔۔۔۔۔ہڈیاں مٹی کے لئے اور(۵)۔۔۔۔۔۔نیکیاں خُصُوم یعنی قیامت کے دن اپنے حق کا مطالبہ کرنے والوں کے لئے ہوتی ہیں۔
مزید فرماتے ہیں کہ ”وارث ما ل لے جا ئے تو قابل برداشت ہے، اسی طرح ملک الموت علیہ السلام روح لے جائيں تو بھی درست ہے مگر اے کا ش !موت کے وقت شیطان ایمان نہ لے جا ئے ورنہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جدائی ہو جائے گی، ہم اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کرتے ہیں کیونکہ اگرسب فراق ایک طرف جمع ہوجائیں اورربّ عَزَّوَجَلَّ کا فراق ایک طرف ہو تو یہ تمام فراقوں سے زیادہ بھاری ہے جسے کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔
حضرتِ سیِّدُنا محمد بن نعیم علیہ رحمۃاللہ الرحیم سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ، صاحب ِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جبرائیلِ امین (علیہ السلام) جب بھی میرے پاس حاضر ہوتے تو وہ اللہ عزَّوَجَلَّ کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔ جب شیطان کی مخالفت ظاہر ہوئی اور قرب ، بلند مرتبہ اور عبادت کے بعد اسے دھتکارا گیا تو جبریل ومیکائیل (علیہما السلام) دونوں رونے لگے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان سے استفسار فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا؟ کیوں روتے ہو؟ حالانکہ میں کسی پر ظلم نہیں کرتا۔” تو انہوں نے عرض کی: ”اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم تیری خفیہ تدبیریعنی تیری قضا، تیرے قرب کے بعد دوری اور سعادت مندی کے بعد شقاوت سے خوف زدہ ہیں۔” تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان سے ارشاد فرمایا: ”اسی طرح میری خفیہ تدبیرسے ڈرتے رہو۔”
(العظمۃ لابی الشیخ الاصبھانی،ذکر میکائیل علیہ السلام،الحدیث۳۸۵،ص۱۳۶،مختصر)