جہنم میں کافر کی حالت :
جہنم میں کافر کی حالت :
حضرتِ سیِّدُناابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار بِاذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے:”کافرکی کھال کی موٹائی بہتّر (72) گز ہو گی، اس کی داڑھ اُحد پہاڑ جتنی ہو گی اور جہنم میں اس کے بیٹھنے کی جگہ مکہ و مدینہ کے درمیانی فاصلے جتنی ہوگی ۔”
(جامع التر مذی ،ابواب صفۃ جھنم ، باب ماجاء فی۔۔۔۔۔۔ اھل النار، الحدیث ۲۵۷۷ ، ص ۱۹۱۱)
اللہ عزَّوَجَلَّ ہم سب کوجہنم کی آگ اور اس میں کفار وفجار کے ٹھکانے سے بچائے۔ کاش! تو جہنمیوں کو اور ان کے کھولتے پانی کو دیکھ لیتاتو ضروراس سے بہت زیادہ پناہ طلب کرتا۔ جب بھی ان کی بھوک سخت ہوگی تو ان کے لئے آگ کے کانٹوں کے سوا کوئی کھانا نہ ہوگا۔ اے گنہگارو! کیا تم جہنم کی آگ برداشت کرسکو گے؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ تو بھڑکتی آگ ہے کہ لوگ جس کی طرف ہرسمت سے ہانکے جائیں گے۔
(3) اِذَا رَاَتْہُمۡ مِّنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ سَمِعُوۡا لَہَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیۡرًا ﴿12﴾وَ اِذَاۤ اُلْقُوۡا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیۡنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا ﴿ؕ13﴾لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوۡرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوۡا ثُبُوۡرًا کَثِیۡرًا ﴿14﴾
ترجمۂ کنزالایمان: جب وہ انہیں دور جگہ سے دیکھے گی تو سنیں گے اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا، اور جب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے زنجیروں میں جکڑے ہوئے تو وہاں موت مانگیں گے۔ فرمایا جائے گا: آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں مانگو۔(۱)(پ18،الفرقان:12تا14)
اور اگراس دن تو لوگوں کو دیکھتا :
(4) یَوْمَ تُبَدَّلُ الۡاَرْضُ غَیۡرَ الۡاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ﴿48﴾
ترجمۂ کنزالایمان:جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان اور لوگ سب نکل کھڑے ہوں گے ایک اللہ کے سامنے جو سب پر غالب ہے ۔(پ13، ابراھیم: 48)(2)
جہنمیوں پر سخت مصائب نازل ہوں گے اور گرد وغبار چھا جائے گا، ان کی پلکوں کے پردوں سے بارش کی طرح خون برسے گا اور بے چینی وآزُردگی انہیں ہرجانب سے گھیر لے گی۔
1۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”(وہ جہنم کو )ایک برس کی راہ سے یا سوبرس کی راہ سے(دیکھیں گے ) دونوں قول ہیں اور آگ کادیکھنا کچھ بعید نہیں ۔اللہ تعالیٰ تو اس کو حیات وعقل اور رؤیت عطا فرمائے اور بعض مفسرین نے کہا کہ مراد ملائکۂ جہنم کا دیکھنا ہے۔(اس طرح جکڑے ہوں گے کہ )اُن کے ہاتھ گردنوں سے ملا کرباندھ دیئے گئے ہوں یا اس طرح کہ ہرہر کافر اپنے اپنے شیطان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو اور واثبور اہ واثبوراہ کا شور مچائیں گے بایں معنٰی کہ ہائے اے موت آ جا۔ حدیث شریف میں ہے کہ پہلے جس شخص کو آتشی(یعنی آگ کا) لباس پہنایا جائے گا وہ ابلیس ہے اور اس کی ذرِّیَّت اس کے پیچھے ہوگی اور یہ سب موت موت پکارتے ہوں گے۔”
2۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”اُس دن سے روزِ قیامت مراد ہے۔ زمین و آسمان کی تبدیلی میں مفسّرین کے دو قول ہیں: ایک یہ کہ اُن کے اوصاف بدل دیئے جائیں گے، مثلاً زمین ایک سطح ہوجائے گی نہ اُس پر پہاڑ باقی رہیں گے، نہ بلند ٹیلے، نہ گہرے غار، نہ درخت، نہ عمارت، نہ کسی بستی اور اقلیم کا نشان۔ اور آسمان پر کوئی ستارہ نہ رہے گا اور آفتاب و ماہتاب کی روشنیاں معدوم(یعنی نہ ) ہوں گی۔ یہ تبدیلی اوصاف کی ہے ذات کی نہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آسمان و زمین کی ذات ہی بدل دی جائے گی۔ اس زمین کی جگہ ایک دوسری چاندی کی زمین ہوگی سفید و صاف۔ جس پر نہ کبھی خون بہایا گیا ہو، نہ گناہ کیا گیا ہو۔ اور آسمان سونے کا ہوگا۔ یہ دو قول اگرچہ بظاہر باہم مختلف معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک صحیح ہے اور وجہِ جمع یہ ہے کہ اوّل تبدیل صفات ہوگی اور دوسری مرتبہ بعد حساب تبدیل ثانی ہو گی۔ اس میں زمین و آسمان کی ذاتیں ہی بدل جائیں گی۔