عالم برزخ
عالم برزخ
کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے موت اور قیامت کے درمیان کی زندگی کو عالم برزخ سے تعبیر
کیا ہے۔
اعمل صالحا فی ماترکت کلا انھا کلمة ھو قآئلھا و من و رائھم برزخ الی یوم یبعثون (سورۂ
مومنون، آیت ۱۰۰)
بار الہا! مجھے پلٹا دے تاکہ جو اعمال صالح ترک کئے ہیں، ان کو بجا لاؤں ہرگز نہیں یہ تو وہ زبانی گفتگو ہے، جس کا قائل وہ ہے اور
اس کے پیچھے برزخ اور فاصلہ ہے، اس دن تک جب یہ اٹھائے جائیں گے۔ “
کیا گیا ہے، اسی آیت سے استفادہ کرتے ہوئے علماء اسلام نے دنیا اور قیامت کبریٰ کے
درمیانی عالم کا نام برزخ رکھا ہے۔ اس آیت میں موت کے بعد زندگی کے دوام کا ذکر بس اتنا ہی ہے
کہ کچھ انسان مرنے کے بعد اظہار پشیمانی کرتے ہوئے درخواست کریں گے کہ ایک دفعہ دنیا میں پھر لوٹائے جائیں، لیکن انکار کر دیا جائے گا۔
انسان کی ایک خاص قسم کی زندگی ہوتی ہے، جس میں رہتے ہوئے وہ واپسی کی خواہش کرتا ہے، لیکن اسے
رد کر دیا جاتا ہے۔
رنج، سرور اور غم بھی ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسے ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے، جس میں سعادت کی آمیزش ہوتی ہے، قرآن کریم میں مجموعی طور پر تقریباً ۱۵ آیتیں ایسی ہیں، جو زندگی کی کسی نہ کسی صورت کو بیان
کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان قیامت اور
موت کے درمیانی عرصے میں ایک مکمل زندگی
رکھتا ہے۔
گی، اس قسم کی آیات کی تعداد کافی ہے، سورۂ نساء کی آیہ نمبر ۹۷ اور سورۂ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۰ جن کا ذکر مع ترجمہ
پہلے ہو چکا ہے، اسی قسم میں سے ہیں۔
بالا مفہوم کے علاوہ کہتی ہیں کہ فرشتے نیک
اور صالح انسانوں سے اس گفتگو کے بعد کہیں
گے کہ بعد ازیں الٰہی نعمتوں
سے فائدہ اٹھاؤ یعنی انہیں قیامت
کبریٰ کی آمد تک منتظر نہیں رکھا جاتا، ذیل
کی دو آیات اسی مطلب پر مشتمل ہیں :
تعملون (سورۂ نحل، آیت ۳۲)
سے جنت میں داخل ہو جایئے۔ “
آیات ۲۶۔ ۲۷)
“(مرنے کے بعد) اس سے کہا جائے گا، بہشت
میں داخل ہو جاؤ وہ کہے گا، اے کاش! جن
لوگوں نے میری بات نہیں سنی، اب جان لیتے کہ میرے پروردگار نے مجھے کیسے
بخش دیا اور اپنے معزز بندوں میں سے قرار دیا ہے۔ “
ہے۔
کو شہر انطاکیہ میں ان انبیاء کا
کہہ رہا ہے، جو عوام الناس کو غیر خدا کی عبادت سے منع کرتے اور خدا کی مخلصانہ
عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے، اس کے بعد یہ مومن اپنے ایمان و اعتقاد کا اظہار کر
کے کہہ رہا ہے کہ میری بات سنو اور میرے راستے پر عمل کرو۔ ان آیات میں ارشاد ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس کی بات کو نہ سنا، حتیٰ کہ وہ اگلے جہان
میں چلا گیا۔ اگلے جہاں میں اپنے بارے میں مغفرت و کرامات الٰہی کے مشاہدہ کے بعد اس نے
آرزو کی کہ
ہے، میری یہاں کی سعادت مند کیفیت کا مشاہدہ کر سکتی۔ “
قبل کے ہیں کیونکہ قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے اور روئے زمین پر کوئی بھی باقی نہیں ہو گا۔
لحاظ سے مختلف ہوں گے، جیسا کہ اہل بیت
اطہارکی احادیث و روایات سے استفادہ ہوتا ہے۔ ان بہشتوں میں سے
بعض عالم برزخ سے مربوط ہیں نہ کہ عالم قیامت
سے، بنابرایں اوپر والی دو آیات میں بہشت کے ذکر سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عالم
قیامت سے مربوط ہیں۔
ہے، جن میں فرشتوں کی انسانوں
کے ساتھ گفتگو کا کوئی ذکر نہیں بلکہ سعادت مند اور نیک انسانوں یا بے سعادت اور بدکار انسانوں کی زندگی کا ذکر ہے، پہلی قسم کے لئے موت کے
فوراً بعد نعمات الٰہی اور دوسری صنف کے لئے عذاب و رنج ہو گا۔
بما اتھم اللہ من فضلہ و یستبشرون بالذین لم یلحقو ابھم من خلفھم الا خوف علیھم
ولا ھم یحزنون (سورۂ آل عمران، آیات ۱۲۹۔ ۱۷۰)
زندہ ہیں اور روزی دیئے جا رہے ہیں۔ اپنے
فضل و رحمت سے خدا نے جو کچھ انہیں دیا
ہے، اس پر وہ خوش ہیں، ان کی آرزو ہے کہ ان کے دنیا والے دوستوں کی شہادت کی بشارت ان تک پہنچے تاکہ انہیں بھی اپنے ساتھ اس شہادت میں شریک دیکھیں۔ ”
النار یعرضون علیھا غدواً و عشیا و یوم تقوم الساعة ادخلوا آل فرعون اشد العذاب(سورۂ مومن، آیات ۴۵۔ ۴۶)
احاطہ کر رکھا ہے، ہر صبح و شام آگ ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے، جب قیامت ہو گی
(کہا جائے گا) آل فرعون کو اب شدید ترین عذاب میں داخل کر دو۔ “
قیامت سے پہلے جس کو سوء العذاب سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ہر روز دو بار
آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، بغیر اس کے کہ اس میں ڈال دیئے جائیں۔ دوسرا بعد از قیامت جس کو
اشدالعذاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حکم ہو گا انہیں جہنم میں داخل کیا جائے۔ پہلے عذاب کے بارے میں صبح و شام کا تذکرہ ہے، دوسرے عذاب میں نہیں۔
عذاب چونکہ عالم برزخ سے مربوط ہے، اسی لئے صبح و شام کا ذکر ہے کیونکہ عالم برزخ
میں عالم دنیا کی طرح صبح و شام، ہفتہ،
ماہ اور سال ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا عذاب عالم قیامت سے متعلق ہے اور وہاں صبح و شام اور ہفتہ وغیرہ کا وجود نہیں۔
علی علیہ السلام اور باقی آئمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث روایات میں عالم برزخ کا ذکر ہے، نیز اہل ایمان و اہل معصیت
کی حیات کا بھی بہت تذکرہ ہے، جنگ بدر میں جب مسلمانوں
کو فتح ہوئی اور سرداران قریش کو ہلاکت کے بعد ایک کنویں میں ڈال
دیا گیا، تو رسول اللہ نے اپنا روئے مبارک کنویں میں کر
کے فرمایا:
اسے ہم نے سچا پایا، تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا تھا، کیا وہ تم نے پا لیا؟”
فرمایا:
“
جسم و جان کا رشتہ موت کی وجہ سے منقطع ہو جاتا ہے، لیکن روح جو سالہا سال تک جسم
کے ساتھ متحد رہی اور وقت گذارا، کلی طور پر بدن سے اپنا تعلق منقطع نہیں کرتی۔
باجماعت پڑھنے کے بعد اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک مختصر سے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
ایک پل کے سوا کچھ نہیں، جو آپ۱ کو درد و رنج کے ساحل سے سعادت و خوش بختی اور وسیع
جنتوں کے ساحل پر پہنچا دے گی۔ “
اور رتبہ دنیوی زندگی سے زیادہ کامل اور بلند ہے۔ جس طرح سے انسان نیند کی حالت میں
احساس کے ایک ضعیف درجہ کا حامل ہوتا ہے، یعنی
اس کی حالت نیم مردہ اور نیم زندہ ہوتی ہے۔
اسی طرح عالم دنیا میں عالم برزخ کی نسبت
زندگی ضعیف تر اور زیادہ کمزور ہوتی ہے، جو عالم برزخ میں منتقل ہونے کے بعد کامل تر ہو جاتی ہے، یہاں پر دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے :
استفادہ ہوتا ہے کہ عالم برزخ میں فقط ان
مسائل کے متعلق سوال ہو گا، جن کا تعلق اعتقاد و ایمان سے ہے۔ باقی مسائل کا سوال
قیامت کبریٰ میں ہو گا۔
کی طرف سے جو نیک کام کئے جاتے ہیں، وہ مردہ کے لئے آسانی، خیر اور سعادت کا باعث
ہوں گے، مثلاً صدقات، خواہ صدقات جاریہ
ہوں، جیسے ان اداروں کی تشکیل جن کا نفع
خلق خدا کو حاصل ہو، یا صدقات غیر جاریہ جو ایسا عمل ہے کہ جلد ختم ہو جاتا ہے، یہ
عمل اگر اس نیت سے ہو کہ اس کا اجر و ثواب، ماں، باپ، دوست، معلم و استاد یا کسی
اور مردہ کو نصیب ہو، تو یہ مرنے والے کے لئے تحفہ شمار کیا جائے گا اور اس کے لئے
خوشی اور سرور کا باعث ہو گا۔ اسی طرح سے ان مرحومین کی نیابت میں دعا، طلب مغفرت، حج، طواف اور زیارات یہی فائدہ
رکھتی ہیں، ممکن ہے اولاد نے والدین کو اپنی زندگی میں خدانخواستہ ناراض کیا ہو اور مرنے کے بعد اس طرح
کے کام کر لے کہ والدین کی رضامندی کا مستحق ہو جائے، اسی طرح اس کے برعکس بھی
ممکن ہے۔