قِبْطِیُوں کی مکروہ چال:
قِبْطِیُوں کی مکروہ چال:
جب قبطیوں(یعنی مصر کے قدیم عیسائی باشندوں)نے دیکھا کہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ڈالنے سے دریا موجزن ہوگیا تو انہیں بڑی تکلیف ہوئی اور وہ اپنے مذہب کومضبوط کرنے کے لئے مختلف حیلے کرنے لگے تاکہ یہ واقعہ ان کی طرف منسوب ہو جائے ۔ لہٰذا انہوں نے یہ مکروہ چال چلی کہ جب دریاکی خاص طغیانی کا وقت قریب آتا تو کسی کوشہید قرار دے کر اُس کا تابوت دریا میں پھینک دیتے اور انہوں نے اس دن کو ”عید” بنا لیاجو آج تک(یعنی صاحب ِ کتاب کے زمانے تک) اسی طرح ہے۔
اسی طرح اہلِ مصر نے سال کے ایَّام میں پانچ دنوں کی زیادتی کر رکھی تھی جس کو وہ ”النَّسِیئُ”کہتے۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآنِ پاک میں اس کا ردّ ِ بلیغ کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
(8) اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُحِلُّوۡنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوۡنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِـُٔوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہُ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللہُ ؕ زُیِّنَ لَہُمْ سُوۡٓءُ اَعْمَالِہِمْ ؕ وَاللہُ لَایَہۡدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿٪37﴾
ترجمۂ کنز الایمان:ان کا مہینے پیچھے ہٹانا نہیں مگر اور کفر میں بڑھنااس سے کافر بہکائے جاتے ہیں ایک برس اسے حلال،ٹھہراتے ہیں اور دوسرے برس اسے حرام مانتے ہیں کہ اس گنتی کے برابر ہو جائیں جواللہ نے حرام فرمائی ،اوراللہ کے حرام کئے ہوئے حلال کر لیں ان کے برے کام ان کی آنکھوں میں بھلے لگتے ہیں اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔(پ10، التوبۃ:37)(۱)
یہ دین میں ان کی سرکشی کی علامت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں سب سے زیادہ شرف والے دین کے ساتھ خاص فرمایا اور اس میں ہمارے لئے ایمان کے بہت سے راستے واضح کئے اور بالخصوص بنی عدنان کے سردار، سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی شفاعت سے بہرہ مند فرمایا۔
وَصَلَّی اللہُ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن
1 ۔۔۔۔۔۔مفسرِشہیر،خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ”نسئ لغت میں وقت کے مؤخر کرنے کو کہتے ہیں اور یہاں شہر حرام کی حرمت کا دوسرے مہینے کی طرف ہٹا دینا مراد ہے زمانۂ جاہلیت میں عرب اشہرِ حُرُم (یعنی ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب) کی حرمت و عظمت کے معتقد تھے۔ تو جب کبھی لڑائی کے زمانے میں یہ حرمت والے مہینے آجاتے تو ان کو بہت شاق گزرتے۔ اس لئے انہوں نے یہ کیا کہ ایک مہینے کی حرمت دوسرے کی طرف ہٹانے لگے، محرم کی حرمت صفر کی طرف ہٹا کر محرم میں جنگ
۔۔۔ جاری رکھتے اور بجائے اس کے صفر کو ماہِ حرام بنالیتے اور جب اس سے بھی تحریم ہٹانے کی حاجت سمجھتے تو اس میں بھی جنگ حلال کرلیتے اور ربیعُ الاوّل کو ماہِ حرام قرا ر دیتے۔ اس طرح تحریم سال کے تمام مہینوں میں گھومتی اور ان کے اس طرزِ عمل سے ماہ ہائے حرام کی تخصیص ہی باقی نہ رہی۔ اس طرح حج کو مختلف مہینوں میں گھماتے پھرتے تھے۔ سید عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے حِجَّۃُ الوداع میں اعلان فرمایا کہ نسئ کے مہینے گئے گزرے ہوئے۔ اب مہینوں کے اوقات کی، وضعِ الٰہی کے مطابق حفاظت کی جائے اور کوئی مہینہ اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اور اس آیت میں نسئ کو ممنوع قرار دیا گیا اور کفر پر کفر کی زیادتی بتایا گیا۔ کیونکہ اس میں ماہ ہائے حرام میں تحریمِ قتال کو حلال جاننا اور خدا کے حرام کئے ہوئے کو حلال کرلینا پایا جاتا ہے۔”