مسلمان کو دھوکا دینے والا ہم سے نہیں
مسلمان کو دھوکا دینے والا ہم سے نہیں
اللّٰہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزّہٌ عنِ العُیُوب صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّایعنی جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔(مسلم،کتاب الایمان، باب قول النبی ۔۔۔الخ، ص۶۵، حدیث: ۱۰۱)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان فرماتے ہیں :غَشَّنَا میں ضمیرِ متکلِّم سے مراد سارے مسلمان ہیں یا اہلِ عرب یا اہلِ
مدینہ یعنی جس نے مسلمانوں کو یا اہلِ عرب کو اہلِ مدینہ کو دھوکہ دیا وہ ہماری جماعت سے نہیں۔(مراٰۃ المناجیح ، ۵/ ۲۵۴)
دھوکا کسے کہتے ہیں؟
حضرت علامہ عبدالرء ُو ف مَناویعلیہ رحمۃُ اللّٰہِ القوی ’’فَیضُ الْقَدِیر شرح جامع الصغیر‘‘ میں لکھتے ہیں:اَلْغِشُّ سَتْرُ حَالِ الشَّیْئِیعنی کسی چیز کی(اصلی) حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر،۶/۲۴۰،تحت الحدیث:۸۸۷۹) تیسری صدی ہجری کے جلیل القدر محدث،فقیہ اور کثیر کتابوں کے مصنف حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن اسحٰق بغدادی حَرْبی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی لکھتے ہیں :فَالغِشُّ أَنْ یُظْہِرَ شَیْئًا وَیَخْفِیَ خِلاَفَہُ أَوْ یَقُولَ قَوْلاً ویَخْفِیَ خِلاَفَہُ یعنی دھوکا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو ظاہر کرے اور اس کے خلاف (یعنی حقیقت) کو چھپائے یا کوئی بات کہے اور اس کے خلاف (یعنی حقیقی بات) کو چھپائے۔(غریب الحدیث للحربی،۲/۶۵۸) مثلاًکسی عیب دار چیز کو اس کا عیب چھپا کر بیچنا، جعلی یا ملاوٹ والی چیزوں کواصلی اور خالص کہہ کر بیچنا وغیرہ ۔
گوشت کوپھونک کر موٹا نہ کرو
حضرت ِسیِّدُنا علیُّ المرتضی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہ تعالٰی وَجہَہُ الکرِیمنے گوشت فروشوں سے ارشاد فرمایا:یَامَعْشَرَالْقَصَّابِیْنَ لَا تَنْفِخُوْا،فَمَنْ نَفَخَ اللَّحْمَ فَلَیْسَ مِنَّا یعنی اے گوشت فروشو!گوشت کو پُھونک کر موٹانہ کرو جس نے ایسا کیا وہ ہم سے نہیں۔
(کنزالعمال،کتاب البیوع،قسم الافعال،۲/۶۵،جزئ۴،حدیث:۹۹۶۵)
تجارتی چیز کا عیب چھپانا گناہ ہے(حکایت )
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان فرماتے ہیں :ایک بار حضورِ اَنورصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلہ کے بازار میں تشریف لے گئے تو کسی دکان پر گندم یا جو یا کسی اور غلہ کا ڈھیر تھا،حضورِ اَنورصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس ڈھیر میں اپنا ہاتھ شریف داخل کیا تو پتہ لگا کہ ڈھیر کے اوپر تو غلہ سوکھا ہوا ہے مگر اندر سے گیلا ہے تو آپ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’ گیلے غلہ کو تو نے ڈھیر کے اوپر کیوں نہ ڈالا تاکہ اسے لوگ دیکھ لیتے جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘غالبًا دکاندار کو یہ خبر نہ تھی کہ یہ بھی جرم ہے،وہ سمجھے تھے کہ خود گیلا کرنا گناہ ہے جو بارش سے قدرتی طور پر گیلا ہوجائے اس میں ہمارا کیا گناہ؟لہٰذا اس سے ان صحابی کا فسق ثابت نہیں ہوتا، نیز گناہ کرلینا اور چیز ہے فسق کچھ اور یہ گناہ تھا جس سے توبہ ہوگئی اگر اس گناہ پر جم جاتے توبہ نہ کرتے تو فسق ہوتا،رب تعالیٰ فرماتاہے:
وَلَمْ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَہُمْ یَعْلَمُوۡنَ﴿۱۳۵﴾ (پ۴،آل عمران:۱۳۵)
ترجمہ کنزالایمان:اور اپنے کئے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں ۔
اس واقعہ سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ تجارتی چیز کا عیب چھپانا گناہ ہے بلکہ خریدار کو عیب پر مطلع کردے کہ وہ چاہے تو عیب دار سمجھ کر خریدے چاہے نہ خریدے۔دوسرے یہ کہ حاکم یا بادشاہ کا بازار میں گشت کرنا،دکانداروں سے ان کی چیزوں کی،باٹ ترازو کی تحقیقات کرنا،قصور ثابت ہونے پر انہیں سزا دینا سنت ہے،
آج جو یہ تحقیقات حکام کرتے ہیں یہ حدیث سے ثابت ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ تجارتی چیز میں عیب پیدا کرنا بھی جرم ہے اور قدرتی پیدا شدہ عیب کو چھپانا بھی جرم۔
(مراٰ ۃ المناجیح،۴/۲۷۲،ملخصاً)
گوشت فَروشوں کیلئے اِحتِیاطیں
شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں: اکثر گوشت بیچنے والے آج کل بَہُت ساری غَلَطیاں کرکے گناہ کماتے اور اپنی روزی خراب کرڈالتے ہیں۔ مِنجُملہ برف خانے کے نکالے ہوئے باسی گوشت کو تازہ کہہ کر فروخت کرنا، ڈھانڈے (بوڑھے بیل)یا بوڑھی بھینس یابوڑھے بھینسے کے گوشت کو بچھیا (یعنی نو عمر گائے) کا گوشت کہہ کربیچنا یابڈّھی گائے یا بچھڑے کی ران پر کسی اور بچھیا کے چھوٹے چھوٹے تھن لگا کر دھوکہ دے کر فروخت کرنا،جن ہڈّیّوں اورچھیچھڑوں کو پھینک دینے کا عُرف(رَواج)ہے اُن کو دھوکے سے وَزن میں چلا دینا، گوشت یا قیمے کو بِغیر تولے صرف اندازے سے تول کے نام پر دینا،(مَثَلاً کسی نے آدھ پاؤ قیمہ مانگا تومُٹّھی میں لیکر وزن کئے بِغیر ہی بطورِ آدھ پاؤ دے دیا)وغیرہ گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام ہیں۔(فیضان سنت، ص۵۹۹)
اندازے سے تولنے کی مُمانَعَت
سُوال:ابھی آپ نے قیمہ اندازے سے تو لنے کی مُمانَعت فرمائی ۔ اس میں تو آزما ئش ہے کیوں کہ کئی چیزیں آج کل اندازے سے ہی تول کر دینے کا
عُرف(یعنی رواج)ہے،تو کیا لینے والا بھی گنہگار ہے ؟
جواب:جی ہاں!اگر تول کے نام پر اندازے سے خریدا تو لینے والا بھی گنہگار ہے۔ اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں تول کے نام پر بِغیر تولے آج کل دی جاتی ہیں وہ آپ تول کے نام پر نہ مانگیں بلکہ اس کی قیمت کہدیں مَثَلاً کہیں، مجھے5روپے کی دہی دے دو یا 12روپے کا قِیمہ دیدو۔ اب وہ جس طرح بھی دے، دونوں گناہ سے بچ گئے۔(ایضا)
عمدہ گوشت کی پہچان
شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’فیضانِ سنت ‘‘کے باب آدابِ طعام میں عمدہ گوشت کی پہچان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:بوڑھا گوشت لال ہوتا ہے،جبکہ جوان گوشت مِٹیالے (بُھورے) رنگ کا اور اس میں عُمُوماً چربی کم ہوتی ہے ۔ بُھورا گوشت زیادہ اچّھا ہوتا ہے۔ گھر کے لئے آخِری بچا ہوا گوشت خریدنا مُفید ہوسکتا ہے کیوں کہ بیچنے والے جلدی جلدی چربی اور ہڈّیاں تول میں چلا دیتے ہیں اوریوں آخِر کے بچے ہوئے گوشت میں بوٹی زیادہ ہوتی ہے!سبزیو ں اور پھلوں کا مُعامَلہ اِس سے اُلَٹ ہے کہ تازہ اورعُمدہ جلدی جلدی بک جاتے اور آخِر میں گلے سڑے بچ رہتے ہیں۔ان معنوں کریہ مَقُولہ دُرُست ہے کہ سبزی اور پھل شُروع میں اور گوشت آخِر میں خریدو۔(فیضان سنت ،ص۵۹۴)
دھوکے باز بیوی
حضرتِ سیِّدُناامام جلال الدّین رومی رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہمثنوی شریف میں فرماتے ہیں :ایک شخص مہمانوں کو کھلانے کے لئے آدھا سیرگوشت خرید کرلایا ، اور پکانے کے لئے بیوی کو دیا ، اس کی بیوی بہت چالاک اور نخرے باز تھی ، وہ جو کچھ گھر میں لاتا برباد کردیتی ، اس کاشوہر بھی اس سے بہت تنگ تھا ۔ بیوی نے گوشت بھونا اور مہمانوں کے بجائے خود کھا گئی ۔ شوہر نے آکر پوچھا : گوشت کہاں ہے ؟ مہمانوں کو کھلا نا ہے ۔ بیوی نے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا : وہ گوشت تو بلی کھا گئی ، چاہیے تو اور لے آؤ ۔ وہ آدمی بیوی کی یہ بات سن کر غصے میں نوکر سے بولا : ترازو لاؤ ! میں بلی کا وزن کروں گا ۔ جب اس نے بلی کو تولا تو وہ آدھا سیر تھی ، یہ دیکھ کر شوہر بولا : اے چال باز عورت ! میں آدھا سیر گوشت لایا تھا ، اس بلی کا وزن بھی آدھا سیر ہے ، اگر یہ گوشت ہے تو بلی کہا ں ہے ؟ اور اگر یہ بلی ہے تو گوشت کہاں ہے ؟
(انوار العلوم مثنوی مولا نا روم ، دفتر پنجم ص۵۳۳ماخوذا)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد