Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
ذَوقِ نَعت ۱۳۲۶ھ برادرِ اعلیٰ حضرت شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خانشاعری

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا
تو خدا کا خدا ہوا تیرا

تاج والے ہوں اس میں یا محتاج
سب نے پایا دِیا ہوا تیرا

ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرے
ہے خزانہ بھرا ہوا تیرا

آج سنتے ہیں سننے والے کل
دیکھ لیں گے کہا ہوا تیرا

اسے تو جانے یا خدا جانے
پیش حق رُتبہ کیا ہوا تیرا

گھر ہیں سب بند دَر ہیں سب تیغے
ایک دَر ہے کھلا ہوا تیرا

کام توہین سے ہے نجدی کو
تو ہوا یا خدا ہوا تیرا

تاجداروں کا تاجدار بنا
بن گیا جو گدا ہوا تیرا

اَور میں کیا لکھوں خدا کی حمد
حمد اُسے وہ خدا ہوا تیرا

جو ترا ہو گیا خدا کا ہوا
جو خدا کا ہوا ہوا تیرا

حوصلے کیوں گھٹیں غریبوں کے
ہے اِرادہ بڑھا ہوا تیرا

ذات بھی تیری اِنتخاب ہوئی
نام بھی مصطفیٰ ہوا تیرا

جسے تو نے دیا خدا نے دیا
دَین رب کی دِیا ہوا تیرا

ایک عالم خدا کا طالب ہے
اور طالب خدا ہوا تیرا

بزمِ اِمکاں ترے نصیب کھلے
کہ وہ دولھا بنا ہوا تیرا

میری طاعت سے میرے جرم فزوں
لطف سب سے بڑھا ہوا تیرا

خوفِ وَزْنِ عمل کسے ہو کہ ہے
دل مَدد پر تلا ہوا تیرا

کام بگڑے ہوئے بنا دینا
کام کس کا ہوا ہوا تیرا

ہر ادا دل نشیں بنی تیری
ہر سخن جاں فزا ہوا تیرا

آشکارا کمالِ شانِ حضور
پھر بھی جلوہ چھپا ہوا تیرا

پردہ دارِ اَدا ہزار حجاب
پھر بھی پردہ اُٹھا ہوا تیرا

بزمِ دنیا میں بزمِ محشر میں
نام کس کا ہوا ہوا تیرا

مَنْ رَّاٰنِیْ فَقَدْ رَاَی الْحَقّ
حسن یہ حق نما ہوا تیرا

بارِ عصیاں سروں سے پھینکے گا
پیش حق سر جھکا ہوا تیرا

یم جودِ حضور پیاسا ہوں
یم گھٹا سے بڑھا ہوا تیرا

وَصل وَحدت پھر اُس پہ یہ خلوت
تجھ سے سایہ جدا ہوا تیرا

صنع خالق کے جتنے خاکے ہیں
رنگ سب میں بھرا ہوا تیرا

اَرضِ طیبہ قدومِ والا سے
ذَرَّہ ذَرَّہ سما ہوا تیرا

اے جناں میرے گل کے صدقے میں
تختہ تختہ بسا ہوا تیرا

اے فلک مہر حق کے باڑے سے
کاسہ کاسہ بھرا ہوا تیرا

اے چمن بھیک ہے تبسم کی
غنچہ غنچہ کھلا ہوا تیرا

ایسی شوکت کے تاجدار کہاں
تخت تختِ خدا ہوا تیرا

اس جلالت کے شہریار کہاں
مُلک مُلکِ خدا ہوا تیرا

اِس وَجاہت کے بادشاہ کہاں
حکم حکمِ خدا ہوا تیرا

خلق کہتی ہے لامکاں جس کو
شہ نشیں ہے سجا ہوا تیرا

زِیست وہ ہے کہ حسن یار رہے
دِل میں عالم بسا ہوا تیرا

موت وہ ہے کہ ذِکر دوست رہے
لب پہ نقشہ جما ہوا تیرا

ہوں زمیں والے یا فلک والے
سب کو صدقہ عطا ہوا تیرا

ہر گھڑی گھر سے بھیک کی تقسیم
رات دن دَر کھلا ہوا تیرا

نہ کوئی دَوسرا میں تجھ سا ہے
نہ کوئی دوسرا ہوا تیرا

سوکھے گھاٹوں مرا اُتار ہو کیوں
کہ ہے دریا چڑھا ہوا تیرا

سوکھے دھانوں کی بھی خبر لے لے
کہ ہے بادَل گھرا ہوا تیرا

مجھ سے کیا لے سکے عدو اِیماں
اور وہ بھی دِیا ہوا تیرا

لے خبر ہم تباہ کاروں کی
قافلہ ہے لٹا ہوا تیرا

مجھے وہ دَرد دے خدا کہ رہے
ہاتھ دِل پر دَھرا ہوا تیرا

تیرے سر کو ترا خدا جانے
تاجِ سر نقش پا ہوا تیرا

بگڑی باتوں کی فکر کر نہ حسنؔ
کام سب ہے بنا ہوا تیرا

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!