Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
سامانِ بخشش Mufti Azam Hind Muhammad Mustafa Raza مفتی اعظم ھند محمد مصطفیٰ رضاشاعری

کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے کب کسی سے نگاہیں بچا کر چلے

کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے
کب کسی سے نگاہیں بچا کر چلے
کون اُن سے نگاہیں لڑا کر چلے
کس کی طاقت جو آنکھیں مِلا کر چلے
وہ حسیں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے
ان کے کوچہ میں منگتا صدا کر چلے
رحمتِ حق ہو ہر دم دُعا کر چلے
قصۂ غم سنایا سنا کر چلے
جانِ عیسیٰ دَوا دو دُعا کر چلے
رب کے بندوں کو رب سے ملا کر چلے
جلوئہ حق وہ ہم کو دکھا کر چلے

مَنْ رَّاٰنِیْ رَاَ الْحَقّ سنا کر چلے
میرا جلوہ ہے حق کا جتا کر چلے
جز بشر اور کیا دیکھیں خیرہ نظر
اَیُّکُمْ مِثْلِی گو وہ سنا کر چلے
جگمگا ڈالیں گلیاں جدھر آئے وہ
جب چلے وہ تو کوچے بسا کر چلے
کیسا تاریک دنیا کو چمکا دیا
سارے عالم میں کیسی ضیا کر چلے
کوئی مانے نہ مانے یہ وہ جان لے
سیدھا رستہ وہ سب کو بتا کر چلے
کوڑیوں کوڑھیوں کے لیے کوڑھ دُور
اچھا چنگا وہ خاصہ بھلا کر چلے
یادِ دامن سے ُمرجھائی کلیاں کھلیں
فیض سے اپنے غنچے کھلا کر چلے

شب کو شبنم کی مانند رویا کیے
صورتِ ُگل وہ ہم کو ہنسا کر چلے
بد سے بد کو لیا جس نے آغوش میں
کب کسی سے وہ دامن بچا کر چلے
جو کمینے تھے ان کو معزز کیا
وہ رَذِیلوں کو سینے لگا کر چلے
سب کو اسلام کا تم نے بخشا شرف
گرتے پڑتوں کو پیارے اُٹھا کر چلے
اِین و آں اور چنیں و چناں سروَرا
تیرے در سے سب اپنا بھلا کر چلے
جس کا ثانی ہوا اور نہ ہے اور نہ ہو
وہ عطا کر چلے وہ سخا کر چلے
عمر بھر اَعدا ان کو ستایا کیے
اور وہ دشمنوں کو دعا کر چلے

سخت اَعدا کو بھی عفو فرما دیا
رحمتِ حق کی شانیں دِکھا کر چلے
جسمِ پُرنور کا یوں تو سایا نہ تھا
اور پتھر میں نقشے جما کر چلے
مرتے دم سر درِ پاک پر رکھ دیا
اس ادا سے قضا ہم ادا کر چلے
جب قمر اِک اِشارے سے ٹکڑے کیا
بولے کافر وہ جادو سا کیا کر چلے
معجزوں کو وہ جادو بتاتے رہے
آپ اپنے پہ ظالم جفا کر چلے
جن کے دعوے تھے ہم ہی ہیں اَہلِ زباں
سن کے قرآں زبانیں دَبا کر چلے
کَیْ صحابی تھے پر تھی یہ ہیبتِ حق
گردنیں سارے کافر جھکا کر چلے

اور گردن َکشی کی تو مارے گئے
سب نے جانا کہ ظالم خطا کر چلے
جن کو اپنا نہیں غم ہمارے لیے
دوڑے جھپٹے وہ پاؤں اُٹھا کر چلے
ابھی میزان پر تھے ابھی پل پہ ہیں
پل میں گرتے بچائے بچا کر چلے
سرِ کوثر سنا شور پیاسوں کا جب
پہنچے شربت پلایا پلا کر چلے
کسی جانب سے آئیں ندائیں حضور
مجرموں کی رِہائی کا کیا کر چلے
دَم میں پہنچے وہ حکمِ رِہائی دیا
ان کو دوزخ سے پھیرا پھرا کر چلے
داغِ دِل ہم نے نوریؔ دِکھا ہی دیا
دردِ دِل کا فسانہ سنا کر چلے

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!