اجمالی بیان ،جنت
اجمالی بیان ،جنت
)حصہ اول(
از: حضرت مولانا مولوی سید مقبول احمد شاہ قادری کشمیری مدظلہ العالی
اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کرے تو اس کی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہوجائے جیسا آفتاب کے سامنے چراغ ،اگر جنت کی کوئی ناخن بھر چیز دنیا میں ظاہر ہوجائے تو تمام آسمان وزمین اس سے آراستہ ہوجائیں ،اگر جنتی کا کنگن ظاہر ہوتو آفتاب کی روشنی مٹادے ،جیسا آفتاب ستاروں کی روشنی مٹا دیتا ہے جنت کی اتنی جس میں کوڑا رکھ سکے دنیا ومافیھا سے بہتر ہے ،جنت کتنی وسیع ہے اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانے۔
،بھیڑ کی وجہ سے دروازے چر چراتے رہیں گے ،جنت میں قسم قسم کے جواہروں کے محل ہونگے جو ایسے صاف اور شفاف کو اندر کے حصے باہر سے اور باہر کے حصے اندر سے دکھائی دیں گے ،جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کے اینٹوں کی ہوں گے اور گارہ مشک کا ایک اینٹ سونے کی ایک اینٹ ،چاندی کی زمین زعفران کی ،
اور ایک روایت میں ہے،ایک اینٹ سونے کی ،ایک اینٹ چاندی کی ایک اینٹ یاقوت سرخ کی اور زمین زمرد سبزکی گھاس کی جگہ زعفران ہے ،جنت میں ایک ایک موتی کاخیمہ ہوگا،
جس کی بلندی ساٹھ (60) میل ،جنت میں چار دریاہیں،ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا ،تیسرا شہد کا اور چوتھا شراب کا،پھر ان سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مکان میں جاری رہیں گے، وہاں کے نہریں زمین کھود کر نہیں بہتے ،بلکہ زمین کے اوپر رواں ہیں، نہر کا ایک کنارہ موتی کا ،دوسرا یاقوت کا
اور نہروں کی زمین خالص مشک کی ،وہاں کی شراب دنیاکی شراب کی طرح نہیں،جس میں بدبو کراہٹ اور نشہ ہوتا ہے ،پینے والے بے عقل ہوجاتے ہیںاور آپ سے باہر ہوکر بیہودہ بکتے ہیں،وہ پاک شراب اب سب باتوں سے پاک اورمنزہ ہے۔
،اگر کسی پرندہ کو دیکھ کر اس کے گوشت کھانے کو جی چاہے تو اسی وقت بھنا ہوا سامنے آجائے گا ،حرؔ پانی وغیرہ کی خواہش ہوتو کوزہ ہاتھ میں آجائیں گے،ان میں ٹھیک اندازے کے موافق پانی ،دودھ ، شراب اور شہد ہوگا کہ ان کے خواہش سے ایک قطرہ کم نہ زیادہ ،بعد پینے کے خود بخود جہا ں سے آئے تھے وہاںچلے جائیں گے ،
وہاں نجاست ،گندگی ،پائخانہ ،پیشاب ،تھوک ،رینٹ ،کان کا میل ،بدن کا میل ،اصلا نہ ہوں گے ،ایک خوشبودار فرحت بخش ڈکار آئیگی اور ڈکار اور پسینے سے خوشبو نکلے گی ،جو مشک کی سی ہوگی،ہر آدمی کو سو ( 100) اشخاص کے کھانے پینے وغیرہ کی طاقت دی جائیگی ،ہر وقت زبان سے تسبیح تکبیر بقصد اور بلا قصد مثل سانس کے جاری ہوں گے ہر شخص کے سرہانے کم از کم دس ہزار
خادم کھڑے ہوں گے ،خادموں کے ایک ہاتھ میں چاندی اور دوسرے ہاتھ میں سونے کا پیالہ ہوگا،ہر پیالہ میں نئی نئی رنگ کی نعمتیں ہونگی ،جنتی کھاتا جائے گا لذت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادتی ہوگی ،ہر نوالہ میں ستر ( 70)مزے ہوں گے ،ہر مزہ دوسرے سے ممتاز ،وہ معاً محسوس ہوں گے،ایک کا احساس دوسرے سے مانع نہ ہوگا۔
،جیسا سفید شیشے میں شراب سرخ دکھائی دیتی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ عزوجل نے انہیں یاقوت سے تشبیہ دی ،اگر یاقوت میں سوراخ کرکے ڈوراڈالا جائے تو ضرور باہر سے دکھائی دے گا، آدمی اپنے چہرہ کو اس کے رخساروں میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گااوران پر ادنیٰ درجہ کا جو موتی ہوگا وہ ایسا ہوگا جو مشرق سے مغرب تک روشن کردے ۔ایک روایت میں ہے کہ مرد اپنا ہاتھ اس کے شانے کے درمیان رکھے گا تو سینے کی طرف سے کپڑے جلد اور گوشت کے باہر سے دکھائی دے گا، اگر جنت کا کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بیہوش ہوجائے اور لوگوں کی نگاہیں اس کا تحمل نہ کر سکیں ،اگر کوئی حور سمندر میں آب دہن ڈالے تو اس کے آب دہن سے سارا سمندرمیٹھا ہوجائے گا۔اور ایک روایت میں ہے کہ اگر جنت کی عورت سات سمندروں میں آب دہن ڈالے تو شہد سے زیادہ شیریں ہوجائیںگے ،جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پینتے دوحوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی ،مگر گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں؛بلکہ اللہ عزوجل کی حمد ،ثنا اور پاکی ہوگی،وہ ایسے خوش گلو ہوں گے کے مخلوق نے کبھی ایسی خوش آواز نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گے ’’ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں،کبھی نہ مریں گے ہم چین والیاں ہیں کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے ،ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گے ،مبارکباد اس کے لئے جو ہمارا اورہم