اسلام تجویز کرتاہے کہ تمام انسان یکساں حقوق رکھتے ہیں پیدائشی طورپہ کسی انسان کودوسرے انسان پرمحض خاندان یاقوم
کی وجہ سے فضیلت یابرتری حاصل نہیں ہے۔ ہاں اپنے اعمال سے ہرشخص اپنے مرتبہ کوبڑھایاگھٹاسکتاہے۔
تمام سمجھ دار لوگ اپنے اندر سے کسی ایک شخص کومنتخب کرکے اپناامیر اورقانون نافذ کرنے والا بنالیں۔ اس امیرکومنتخب ہونے کے بعدشاہانہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں۔
وہ قانون شریعت کے قائم کردہ اصولوں اورحکموں کے ماتحت ملک وقوم میں امن وانتظام قائم رکھنے کاذمہ دارہوتاہے اورہر اک شخص اس کوکوئی خلاف قانون کام کرتے دیکھ کر روک ٹوک کرسکتاہے اورہرمعاملہ میں اس سے جواب طلب کرنے کاآزادانہ حق رکھتاہے امیرکوخلیفہ کہتے ہیں۔
جب حضرت ابابکرصدیق خلیفۃ المسلمین کے منصب جلیلہ پرفائزکئے گئے توحاضرین کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔”مسلمانو ! میں تمہارا حاکم بنایاگیاہوں”۔ اگرچہ میں تم سے کسی سے بھی بہتر نہیں ہوں۔ تم میں جوکمزور ہوجب تک اس کی دادرسی نہ ہوجائے۔ میرے نزدیک وہ سب سے زیادہ قوی ہوگا اور تم میں اس کاقوی شخص میرے نزدیک کمزورہے۔جب تک اس سے دوسروں کاحق نہ لیاجائے۔
اے لوگو ! میںمتبع ہوں، کسی نئے راستے کا موجد نہیں ہوں اگرمیں سچائی کواپناراستہ بناؤں،توتم سب میری مددکرو۔ اوراگر میں کج روی اختیارکروں تومجھے سیدھے راستہ پرلگاد، خلیفہ کو بیت المال کا انتظام کرناپڑتاہے۔ بیت المال رعایاکاخزانہ ہے،خلیفہ اپنی ذات یا اپنی ذاتی خواہشات کے لئے بیت المال سے کچھ بھی خرچ کرنے کا اختیارنہیں رکھتا۔ اس کی حیثیت ایک امین یامہتمم کی ہے، وہ رفاہ رعایا اورفوج وپولیس وغیرہ کے مصارف میںبیت المال کاروپیہ خرچ کرتاہے،اگرملک میں بغاوت ہوتواس کے دفع اوربدامنی کوامن وامان سے تبدیل کرانے کی تدابیر عمل لاتاہے۔ مظلوموں کے حقوق ظالموں سے دلاتا، اورچوروں ڈاکوؤں اوررہزنوں کوسزائیں دیتااوررعایا کی جان ومال آبرو کی حفاظت ونگرانی کرتاہے۔جھگڑوں میں عدل وانصاف کومدنظررکھتااورمسلم وغیرمسلم کامطلق لحاظ نہیں رکھتاہے۔ تمام بے حیائی کے کاموں کوروکتاہے خلیفہ مسلمانوں کونماز،روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ عبادات پرقائم رکھتا۔اوران چیزوں کے اداکرنے کااہتمام کرتاہے غیر مسلم رعایاکے عبادت خانوں کی حفاظت کابھی خلیفہ اسی طرح ذمہ دار ہے۔ جس طرح غیرمسلموں کی جان ومال کی حفاطت اس کافرض ہے،راستوں کی حفاظت اورتجارت وصنعت وزراعت کی ترقی کی تدابیرعمل میں لانا بھی خلیفہ کے فرائض میں داخل ہے۔خوردوپیداواریعنی جنگلوں ، پہاڑوں اوردریاؤں سے حاصل ہونے والی چیزیں تمام لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ ان پرکوئی ٹیکس حکومت کی طرف سے عائدنہیں کیاجاسکتا۔
اسلامی نظام سلطنت کاکامل نمونہ خلفائے راشدین کی حکومت وسلطنت ہے۔خلیفہ اگرراہ سے بے راہ روہوجائے۔تواس کو مسلمانوں کی جماعت فوراً معزول کرسکتی اوردوسرے موزوں شخص کو خلیفہ بنانےکاحق رکھتی ہے۔ لیکن بلاوجہ خلیفہ کے حکم سے سرتابی اوراس کی نافرمانی جرم عظیم اوربغاوت ٹھہرائی گئی ہے۔
خلیفہ کے انتخاب میں کسی وراثت ،کسی خاندانی یاقومی حقدار کورتی برابر بھی دخل نہیں ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺکے بعد حضرت ابابکرصدیق کی قابلیت کی بناپر مسلمانوں کے خلیفہ منتخب ہوئے۔ان کے بعد باوجود ان کے [
جوان،بہادر،عقلمنداورلائق بیٹے موجود تھے۔حضرت عمرفاروق اعظم خلیفہ بنائے گئے۔
جوحضرت ابابکرصدیق سے کوئی قریبی رشتہ دری بھی نہیں رکھتے تھے۔ حضرت عمرفاروق اعظم خلفیۂ دوم کے بعد حضرت عثمان غنی خلیفہ ہوئے۔حالانکہ حضرت فاروق اعظم کے نہایت لائق وفائق بیٹے حضرت عبداللہ ابن عمر موجودتھے۔حضرت عثمان غنی کے بعد حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ خلیفہ منتخب ہوئے۔حالانکہ حضرت عثمان غنی کے بیٹے اورقریبی رشتہ دارموجودتھے۔۔خلافت راشدہ نے صاف طور پہ بتادیا ہے کہ سلطنت اورحکومت کسی خاص خاندان اورکسی مخصوص قبیلہ کاحق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی نے سب سے پہلے وراثتی شخصی سلطنت کی لعنت کودنیاسے مٹایا اور بتایا کہ حکومت وسلطنت ایک امانت ہے ۔جوتمام لوگوں کی طرف سے کسی شخص کوسپردکی جاتی ہے جب وہ شخص فوت ہویامعزول کیاجائے تواس کی جگہ پھرتمام سمجھدار لوگ کسی دوسرے شخص کومنتخب کریں۔ اس طرح دنیامیں نہ کوئی شاہی خاندان موجود ہو سکتاہے۔ نہ کوئی فرمانروا اپنے بیٹے کواپنا جانشین بنانے کاخیال دل میں لاسکتاہےساتھ ہی اس بات کوبھی لازمی قراردیاکہ ایک مجلس شوریٰ ہمیشہ امورسلطنت میں خلیفہ کوا مدادپہنچاتی رہے۔ خلفائے راشدین کوجب کوئی اہم معاملہ پیش آتا تووہ منادی کو حکم دیتے۔ جن منادی اعلان کردیتاتوتمام لوگ مسجدنبویﷺ میں جمع ہوجاتے۔ خلیفہ ممبرپرچڑھ کر حمدونعت کے بعد حاضرین کے سامنے وہ مسئلہ پیش کردیتا۔سمجھدارلوگ باری باری سے اس مسئلہ کے متعلق تقریریں کرتے اور آخر میں کثرت رائے سے فیصلہ ہوجاتا۔
بہرحال اسلام نے سب سے پہلے باقاعدہ اورموثر طریقہ سے شخصی وراثت سلطنت کے سلسلے کومٹانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں ہی کی تعلیم کااثرتھاکہ ہسپانیہ کے ہمسایہ ملک فرنس میں جمہوری سلطنت کی بنیادرکھی گئی۔اس کے بعد امریکہ میں بھی جمہوریت قائم ہوئی۔ اورآج دنیاکے بہت سے ملکوں میں جمہوری سلطنتیں قائم ہوچکی ہیں۔ فرانس وامریکہ کی جمہوریت درحقیقت اسلامی تعلیمات سے متاثرہونے کانتیجہ ہے۔
(آئینہ حقیقت نما،جلداول،صفحہ 28تا31مصنفہ اکبرشاہ