Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

 امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دُنیا سے بے رغبتی:

 امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دُنیا سے بے رغبتی:

حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کو دُنیاسے کوئی رغبت نہ تھی۔ لغو اور بے ہودہ باتوں سے اجتناب فرماتے تھے۔

چنانچہ، ایک روز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کسی عالِم کی برائی کر رہا تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اپنے کانوں کو غیبت سننے سے پاک رکھوجیسے اپنی زبان کو غیبت کرنے سے بچاتے ہو۔ اس لئے کہ غیبت سننے والا بھی کرنے والے کا شریک ہوتا ہے ۔ بلاشبہ بے وقوف شخص جب اپنے برتن میں گندگی دیکھتا ہے تواسے تمہارے برتنوں میں انڈیلنا چاہتا ہے۔ اگر بے وقوف کی بات کا سختی سے انکار کردیا گیا تو انکار کرنے والااسی طرح خوش بختی سے سرفراز ہو جیسے بے وقوف بدبختی کا مستحق بنتا ہے۔”

(حلیۃ الاولیاء،الامام الشافعی،الحدیث۱۳۳۶۴،ج۹،ص130)

منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا عبد القاہر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ الکبیر ایک متقی اور نیک شخص تھے۔وہ حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی سے تقویٰ کے مسائل دریافت کرتے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے تقویٰ کی وجہ سے ان کی طرف توجہ فرماتے۔ ایک بار انہوں نے عرض کی:”صبر ،آزمائش اورطاقت وقدرت میں سے کون سی چیز افضل ہے ؟”تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: ”طاقت،کہ یہ انبیا ء کرام علیہم السلام کا درجہ ہے اور آزمائش کے بعد ہی طاقت ملتی ہے۔ جب کسی کی آزمائش ہوتی ہے اور وہ صبر کرتا ہے تواسے طاقت دی جاتی ہے ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو آزمائش میں ڈالاپھر اُنہیں طاقت عطافرمائی۔ حضرت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کو آزمائش میں مبتلا فرمایاپھر انہیں قوت عطا فرمائی۔ اسی طر ح حضرت سیِّدُنا ایوب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کا امتحان لیا پھر انہیں بھی طاقت دی اور حضرت سیِّدُنا سلیمان علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھی آزمائش میں مبتلافرما کر عظیم بادشاہت عطا فرمائی۔پس طاقت کا درجہ سب سے بلند ہے۔”

(احیاء علوم الدین،کتاب العلم،باب ثانی فی العلم المحمود والمذموم واقسامھما واحکامھما،ج۱،ص۴۶)

حضرت سیِّدُنا عبدالملک بن عبد الحمید میمونی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”میں حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کا ذکر ِ خیر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام احمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی بہت تعظیم کر رہے تھے ۔ پھر ارشاد فرمایا: ”مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس امت میں ہر سو سال کے سِرے پر ایک ایسا شخص بھیجے گا جواس (اُمت ) کے لئے اس کے دین کو قائم کریگا۔”

(سنن ابی داؤد،کتاب الملاحم، باب مایذکر فی قرن المائۃ،الحدیث۴۲۹۱، ص۱۵۳۵)

(پھر فرمایا) حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز پہلی صدی کے مجدّ ِد تھے اور میں اُمید کرتاہوں کہ حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی دوسری صدی کے مجددہیں۔”

(المستدرک،کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر بعض المجدِّدین فی ھذہ الامۃ، روایۃ استاذ ابی الولید، تحت الحدیث۸۶۳۹، ج۵، ص۷۳0)

حضرت سیِّدُنا ہارون بن سعید بن ہیثم ایلی علیہ رحمۃاللہ الولی نے ارشاد فرمایا:”میں نے حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی جیسا کوئی نہ دیکھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصر میں ہمارے پاس تشریف لائے تو لوگوں نے کہا:”ایک قریشی فقیہہ ہمارے پاس آئے ہیں۔” پس ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ خوبصورت چہرے والااور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اچھی نمازپڑھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ ہم انتظار کرتے رہے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز ادا کر لی تو گفتگو کا آغاز فرمایا۔ ہم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اچھا کلام کرنے والا بھی کوئی نہ دیکھا۔”
حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی عام طور پر حقیقت، دُنیا سے بے رغبتی اور دلوں کے بھیدوں کے متعلق کلام فرمایا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے: ”وہ شخص دُنیاسے کیسے بے رغبت ہو سکتا ہے جو آخرت کی معرفت نہیں رکھتا؟ وہ کیسے دنیا سے خلاصی پا سکتا ہے جو خود کوجھوٹی طمع سے خالی نہ کرے؟ وہ کیسے سلامتی پا سکتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ نہ ہوں؟ وہ کیسے حکمت پاسکتا ہے جس کا کلام رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے نہ ہو؟”
کسی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: ”رِیا کیا ہے؟ ”تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”جب تجھے اپنے عمل میں خودپسندی کا ڈر ہو تو دیکھ! تو کس کی رضا کا طالب ہے؟ کس ثواب کی طرف رغبت رکھتاہے؟ کس عذاب سے ڈرتا ہے؟ کس عافیت کا شکر ادا کرتاہے؟ اور کس مصیبت کویاد کرتاہے؟”(جب تو ان میں سے کسی چیز میں غور وفکر کریگا تو اپنے اعمال کو حقیر پائے گا۔)

(احیاء علوم الدین،کتاب العلم،باب ثانی فی العلم المحمود والمذموم واقسامھما واحکامھما،ج۱،ص۴۶)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!