ایک گلوکار کی توبہ
(3 ) ایک گلوکار کی توبہ
حضرت عبداللہ بن مسعود ايک دن مضافاتِ کوفہ سے گزر رہے تھے ۔ان کا گزر فاسقين کے ايک گروہ پر ہوا، جو شراب پی رہے تھے ۔زاذان نامی ايک گوّیا ڈھول پر ہاتھ مار مار کر انتہائی خوبصورت آواز ميں گا رہا تھا ۔آپ ص نے سن کر کہا : ”کتنی خوبصورت آواز ہے کاش!کہ يہ قرآن کريم کی تلاوت ميں استعمال ہوتی ۔”اورسر پر چادر ڈال کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔زاذان نے جب آپکو دیکھا تو لوگوں سے پوچھا : ”يہ کون ہيں؟”لوگوں نے بتايا :” حضورنبی رحمت اکے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔”اس نے پوچھا : ”انہوں نے کيا کہا ۔”بتايا گيا کہ انہوں نے کہا ہے کہ : ”کتنی ميٹھی آواز ہے، کاش کہ قرأت قرآن کے ليے ہوتی ۔”يہ بات سنتے ہی اس کے دل پر رعب سا چھا گيا ۔اپنے بربط کو زمين پر پٹخ کر توڑ ديا ۔کھڑا ہوا اور جلدی سے انہيں
جا ليا۔ اپنی گردن ميں رومال ڈالا اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے رونے لگ گيا ۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے گلے سے لگايا اور دونوں رونا شروع ہو گئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمايا :”ميں ايسے شخص کو کيوں نہ محبوب سمجھوں جسے اللہ عزوجل نے محبوب بنا ليا ہو ۔”سیدنا زاذان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گناہوں سے توبہ کی اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت اختيار کر لی۔ قران کريم اور دیگرعلوم سيکھے ۔حتی کہ علم ميں امام بن گئے ۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کئی روايات حضرت زاذان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔” (تنبيہ الغافلين ،باب آخرمن التو بۃ ، ص ۶۳)