بخت خفتہ نے مجھے روضہ پہ جانے نہ دیا
بختِ خفتہ نے مجھے روضہ پہ جانے نہ دیا
چشم و دِل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا
آہ قسمت مجھے دنیا کے غموں نے روکا
ہائے تقدیر کہ طیبہ مجھے جانے نہ دیا
پاؤں تھک جاتے اگر پاؤں بناتا سر کو
سر کے بدل جاتا مگر ضعف نے جانے نہ دیا
اِتنا کمزور کیا ضعفِ قُویٰ نے مجھ کو
پاؤں تو پاؤں مجھے سر بھی اُٹھانے نہ دیا
سر تو سر جان سے جانے کی مجھے حسرت ہے
موت نے ہائے مجھے جان سے جانے نہ دیا
حالِ دِل کھول کے دِل آہ اَدا کر نہ سکا
اتنا موقع ہی مجھے میری قضا نے نہ دیا
ہائے اس دل کی لگی کو میں بجھاؤں کیونکر
فرطِ غم نے مجھے آنسو بھی گرانے نہ دیا
ہاتھ پکڑے ہوئے لے جاتے جو طیبہ مجھ کو
ساتھ اتنا بھی تو میرے رُفقا نے نہ دیا
سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اِذْن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا
حسرتِ سجدہ یونہی کچھ تو نکلتی لیکن
سر بھی سرکار نے قدموں پہ جھکانے نہ دیا
کوچۂ دِل کو بسا جاتی مہک سے تیری
کام اتنا بھی مجھے بادِ صبا نے نہ دیا
کبھی بیمارِ محبت بھی ہوئے ہیں اچھے
روز اَفزوں ہے مَرَض کام دوا نے نہ دیا
شربتِ دِید نے اَور آگ لگادی دل میں
تپشِ دِل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دیا
اب کہاں جائے گا نقشہ ترا میرے دل سے
تہ میں رکھا ہے اِسے دِل نے ُگمانے نہ دیا
دیس سے ان کے جو اُلفت ہے تو دل نے میرے
اس لئے دیس کا جنگلہ بھی تو گانے نہ دیا
دیس کی دُھن ہے وہی راگ اَلاپا اس نے
نفس نے ہائے خیال اس کا مٹانے نہ دیا
نفسِ بدکار نے دل پر یہ قیامت توڑی
عملِ نیک کیا بھی تو چھپانے نہ دیا
نفسِ بدکیش ہے کس بات کا دِل پہ شاکی
کیا بُرا دِل نے کیا ظلم کمانے نہ دیا
میرے اَعمال کا بدلہ تو جہنم ہی تھا
میں تو جاتا مجھے سرکار نے جانے نہ دیا
میرے اَعمالِ سیہ نے کیا جینا دُوبھر
زہر کھاتا ترے اِرشاد نے کھانے نہ دیا
اَور چمکتی سی غزل کوئی پڑھو اے نوریؔ
رنگ اپنا ابھی جمنے شعرا نے نہ دیا