تذکرۂ امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی
تذکرۂ امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی
حمد ِباری تعالیٰ:
تمام تعریفیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے جس نے علما ء کو اعلیٰ اوربلند مراتب پرفائز فرمایا۔اوراس نے جب اپنے اسماء وصفات کے اسرارکی سمجھ کے لئے انہیں چن لیاتومراتب کوان کے لئے پست کردیااورانہیں احوالِ معرفت کے لئے جھکادیا۔ ان کی عقلوں کے موتیوں کو(کھرے کھوٹے کی)تمیزکے دھاگے میں مضبوطی سے پرو دیا۔ان کی نشانیاں تمام عالَم میں پھیلادیں۔ ان کی قلموں سے حکمتوں کے چشمے جاری کردئیے ۔توان میں سے ہرکوئی اپنے مذہب (یعنی فقہ)کے مطابق لکھتاہے۔چنانچہ،
حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نعمتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ اور علم و فہم میں اس گروہِ علماء کے بادشاہ ہیں۔ اور حضرت سیِّدُنا امام مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس گروہ میں فضل وکمال میں فائق ہیں،انہوں نے حدیث پاک کی راہ ہموار کی اور اپنے حصے کے احکام مرتب فرمائے۔اور حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی علم کی بہت زیادہ چاہت رکھنے والے ہیں اور انہوں نے علماء کو علم سے بڑ احصہ پہنچایا۔اور حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ علماء کے سردارہیں،ان پراعتماد کیا جاتا ہے پس وہ اپنے پاس کسی غم سے نہیں گھبراتے ۔اوریہ تمام اہلِ علم اپنے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ سے اپنی نیک طلب کے پورا ہونے کے انتہائی خواہش منداوراس فرمانِ ذیشان کی عملی تفسیرہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب ،حبیب لبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر نازل فرمایاہے: ”وَ قُلۡ رَّبِّ زِدْنِیۡ عِلْمًا ﴿۱۱۴﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اورعرض کروکہ اے ميرے رب! مجھے علم زيا دہ دے۔”(پ۱۶،طٰہٰ:۱۱۴)
مَیں اللہ عَزَّوّجلَّ کی ایسی حمد بجا لاتا ہوں جس کے ذریعے اخلاص کاکچھ حصہ پانے میں کامیاب ہو جاؤں۔اورمَیں اس کلمہ ”لَااِلٰہَ اِلاَّاللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ” (یعنی اللہ عَزَّوّجلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں) کی گواہی دیتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے گناہوں کو مٹالوں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت سیدنا محمدمصطفی،احمدمجتبیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اللہ عَزَّوّجلَّ کے خاص بندے اور رسول ہیں۔جن کی شریعت کے طفیل اللہ عَزَّوّجلَّ نے دلوں سے غم دور فرمادئیے۔آپ پر درود وسلام ہواورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی آل واصحاب،ازواجِ مطہرات اور اولادِاَمجاد پررحمت وسلامتی نازل ہوجن کو اللہ عَزَّوّجلَّ نے فضل وشرف کے آسمان پر ستاروں کی مانند طلوع فرمایا۔
تعارُفِ امامِ شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی :
مؤرِّخین(تاریخ لکھنے والے) فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا امام محمد بن ادریس شافعی علیہ رحمۃاللہ الکافی فلسطین کے ایک قصبے میں پیداہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمردوسال تھی کہ والد ِ محترم انتقال فرماگئے ۔ والدۂ ماجدہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ تَعَالٰی شَرَفاً وَّتَکْرِیْماً لے آئیں۔ وہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پرورش پائی اور اہلِ علم کے اجتماعات میں شرکت فرمائی۔ پس اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرعلم کا وہ دروازہ کھولا جوکسی پر نہ کھولا تھا۔یہاں تک کہ جب عمر مبارک پندرہ برس ہوئی تو مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ تَعَالٰی شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً کے مفتئ اعظم حضرت سیِّدُنا مسلم بن خالد زنجی علیہ رحمۃاللہ الغنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فتویٰ کی ترغیب دینے لگے۔
(کتاب الثقات لابن حبان،باب المیم،الرقم۲۹۹۷محمد بن ادریس الشافعی،ج۵،ص۴0۶)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام و نسب:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پورا نام محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع ہے اور نسب مبارک عبد ِ مناف سے جا کر نبئ پاک، صاحب ِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے جا ملتاہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغداد شریف کا سفر کیا اوردو سال وہاں قیام فرمایا۔پھر مکۂ مکرمہ لوٹ آئے اور یہاں چند ماہ قیام فرمایا۔ پھر مصر تشریف لے گئے اور وہیں انتقال فرمایا۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو تین حصوں میں تقسیم فرما لیتے: ”تہائی علم کے لئے، تہائی نما ز کے لئے اور تہائی نیند کے لئے۔”
(احیاء علوم الدین،کتاب العلم،باب ثانی فی العلم المحمود والمذموم واقسامھما واحکامھما، ج۱، ص۴۴)
حضرت سیِّدُناربیع علیہ رحمۃاللہ الجلی کا بیان ہے کہ”حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃاللہ الکافی روزانہ ایک قرآنِ عظیم ختم کیا کرتے تھے۔”
(تاریخ بغداد،الرقم۴۵۴محمد بن ادریس الشافعی،ج۲،ص۶۱)
مزید فرماتے ہیں کہ”حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃاللہ الکافی ماہِ رمضانُ المبارک کے نوافل میں ساٹھ(60) بار قرآنِ پاک ختم کرتے تھے۔”
(احیاء علوم الدین،کتاب العلم،باب ثانی فی العلم المحمود والمذموم واقسامھما واحکامھما، ج۱، ص۴۴)