تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سروَر کا
تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سروَر کا
بھرا آتا ہے پانی میرے مونہہ میں حوضِ کوثر کا
جو کچھ بھی وَصف ہو اُن کے جمالِ ذَرَّہ پروَر کا
مِرے دیوان کا مَطلع ہو مَطلع مہرِ محشر کا
مجھے بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشیدِ محشر کا
لئے جاؤں گا چھوٹا سا کوئی ذَرَّہ تِرے دَر کا
جو اِک گوشہ چمک جائے تمہارے ذَرَّۂ در کا
ابھی مونہہ دیکھتا رہ جائے آئینہ سکندر کا
اگر جلوہ نظر آئے کف پائے منور کا
ذرا سا مونہہ نکل آئے ابھی خورشید محشر کا
اگر دَم بھر تصور کیجئے شانِ پیمبر کا
زباں پر شور ہو بے ساختہ اَللّٰہُ اَکْبَر کا
اُجالا طور کا دیکھیں جمالِ جاں فزا دیکھیں
کلیم آکر اُٹھا دیکھیں ذرا پردہ ترے دَر کا
دو عالم میہماں تو میزباں خوانِ کرم جاری
ادھر بھی کوئی ٹکڑا میں بھی کتا ہوں ترے در کا
نہ گھر بیٹھے ملے جوہر صفا و خاکساری کے
مرید ذرّۂ طیبہ ہے آئینہ سکندر کا
اگر اس خندۂ دنداں نما کا وصف موزوں ہو
ابھی لہرا چلے بحرِ سخن سے چشمہ گوہر کا
تِرے دامن کا سایہ اور دامن کتنے پیارے ہیں
وہ سایہ دشت محشر کا یہ حامی دِیدۂ تر کا
تمہارے کوچہ و مرقد کے زائر کو میسر ہے
نظارہ باغِ جنت کا تماشہ عرشِ اَکبر کا
گنہگارانِ اُمت ان کے دامن پر مچلتے ہوں
الٰہی چاک ہو جس دم گریباں صبح محشر کا
ملائک جن و اِنساں سب اسی دَر کے سلامی ہیں
دو عالم میں ہے اک ُشہرہ مِرے محتاج پروَر کا
الٰہی تشنہ کامِ ہجر دیکھے دشت محشر میں
برسنا اَبر رحمت کا چھلکنا حوضِ کوثر کا
زیارت میں کروں اور وہ شفاعت میری فرمائیں
مجھے ہنگامۂ عیدین یارب دن ہو محشر کا
نصیب دوستاں ان کی گلی میں گر سکونت ہو
مجھے ہو مغفرت کا سلسلہ ہر تار بستر کا
وہ گریہ اُستن حنانہ کا آنکھوں میں پھرتا ہے
حضوری نے بڑھایا تھا جو پایا اَوجِ منبر کا
ہمیشہ رہروانِ طیبہ کے زیر قدم آئے
الٰہی کچھ تو ہو اعزاز میرے کاسۂ سر کا
سہارا کچھ نہ کچھ رکھتا ہے ہر فردِ بشر اپنا
کسی کو نیک کاموں کا حسنؔ کو اپنے یاوَر کا
دن اور رات میں یکساں دیکھنا
امام بیہقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بروایت حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نقل کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اندھیری رات میں روشن دن کی طرح دیکھتے تھے ۔
(الخصائص الکبری للسیوطی، ۱ / ۱۰۴، دارالکتب العلمیۃ بیروت)