تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا
تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا
ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہوگا
گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہوگا
کیا بغیر کیا بے کیا کیا ہوگا
خدا کا لطف ہوا ہوگا دست گیر ضرور
جو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہوگا
دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبی
کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہوگا
خدائے پاک کی چاہیں گے اَگلے پچھلے خوشی
خدائے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہوگا
کسی کے پاؤں کی بیڑی یہ کاٹتے ہونگے
کوئی اَسیر غم ان کو پکارتا ہوگا
کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ
نہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہوگا
کسی کے پلہ پہ یہ ہوں گے وقت وَزنِ عمل
کوئی اُمید سے مونھ ان کا تک رہا ہوگا
کوئی کہے گا دُہائی ہے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ
تو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہوگا
کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوئے جحیم
وہ اُن کا راستہ پھر پھر کے دیکھتا ہوگا
شکستہ پا ہوں مِرے حال کی خبر کر دو
کوئی کسی سے یہ رو رو کے کہہ رہا ہوگا
خدا کے واسطے جلد ان سے عرض حال کرو
کسے خبر ہے کہ دَم بھر میں ہائے کیا ہو گا
پکڑ کے ہاتھ کوئی حالِ دل سنائے گا
تو رو کے قدموں سے کوئی لپٹ گیا ہوگا
زبان سوکھی دکھا کر کوئی لب کوثر
جنابِ پاک کے قدموں پہ گر گیا ہوگا
نشانِ خسروِ دِیں دُور کے غلاموں کو
لوائے حمد کا پرچم بتا رہا ہوگا
کوئی قریب ترازو کوئی لبِ کوثر
کوئی صراط پر ان کو پکارتا ہوگا
یہ بے قرار کرے گی صدا غریبوں کی
مقدس آنکھوں سے تار اَشک کا بندھا ہو گا
وہ پاک دل کہ نہیں جس کو اپنا اَندیشہ
ہجومِ فکر و تردُّد میں گھر گیا ہوگا
ہزار جان فدا نرم نرم پاؤں سے
پکار سن کے اَسیروں کی دوڑتا ہوگا
عزیز بچہ کو ماں جس طرح تلاش کرے
خدا گواہ یہی حال آپ کا ہوگا
خدائی بھر انہیں ہاتھوں کو دیکھتی ہوگی
زمانہ بھر انہیں قدموں پہ لوٹتا ہوگا
بنی ہے دَم پہ دُہائی ہے تاج والے کی
یہ غل یہ شور یہ ہنگامہ جا بجا ہوگا
مقام فاصلوں پر کام مختلف اتنے
وہ دن ظہورِ کمالِ حضور کا ہوگا
کہیں گے اور نبی اِذْ ھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ
مرے حضور کے لب پر اَنَا لَھَا ہوگا
دُعائے امت بدکار وِردِ لب ہوگی
خدا کے سامنے سجدہ میں سر جھکا ہوگا
غلام ان کی عنایت سے چین میں ہونگے
عدو حضور کا آفت میں مبتلا ہوگا
میں ان کے در کا بھکاری ہوں فضل مولیٰ سے
حسنؔ فقیر کا جنت میں بسترا ہوگا