تیرا جلوہ نورِ خدا غوثِ اعظم
ترا جلوہ نورِ خدا غوثِ اعظم
ترا چہرہ اِیماں فزا غوثِ اعظم
مجھے بے گماں دے گما غوثِ اعظم
نہ پاؤں میں اپنا پتا غوثِ اعظم
خودی کو مٹادے خدا سے مِلادے
دے ایسی فنا و بقا غوثِ اعظم
خودی کو گماؤں تو میں حق کو پاؤں
مجھے جامِ عرفاں پلا غوثِ اعظم
خدا ساز آئینۂ حق نما ہے
ترا چہرئہ پُرضیا غوثِ اعظم
خدا تو نہیں ہے مگر تو خدا سے
جدا بھی نہیں ہے ذرا غوثِ اعظم
نہ تو خود خدا ہے نہ حق سے جدا ہے
خدا کی ہے تو شان یاغوثِ اعظم
تو باغِ علی کا ہے وہ پھول جس سے
دماغِ جہاں بس گیا غوثِ اعظم
ترا مرتبہ کیوں نہ اعلیٰ ہو مولیٰ
ہے محبوبِ رَبُّ الْعُلَا غوثِ اعظم
ترا رُتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر سروں پر
قدم اَولیا نے لیا غوثِ اعظم
ترا دامنِ پاک تھامے جو رَہزن
بنے ہادی و رہنما غوثِ اعظم
نہ کیوں مہرباں ہو غلاموں پہ اپنے
کرم کی ہے تو کان یا غوثِ اعظم
ترے صدقہ جاؤں مری لاج رکھ لے
تیرے ہاتھ ہے لاج یا غوثِ اعظم
پریشان کر دے پریشانیوں کو
پریشان دل ہے مرا غوثِ اعظم
مری کشتی چکرا رہی ہے بھنور میں
مرے ناخدا باخدا غوثِ اعظم
خدارا سہارا سہارا خدارا
تلاطم ہے حد سے سوا غوثِ اعظم
ارے مورے سیاں پڑوں تورے پیاں
پکڑ موری بیاں پیا غوثِ اعظم
خطائیں ہماری جو حد سے سوا ہیں
عطا تیری ان سے سوا غوثِ اعظم
خطا کاریاں گرچہ حد سے بھی اپنی
سوا ہیں سوا ہیں سوا غوثِ اعظم
ہماری خطا کو تمہاری عطا سے
بھلا کوئی نسبت بھی یا غوثِ اعظم
تو رحم و کرم کا ہے بے پایاں دَریا
یہ اِک فردِ عصیاں ہے کیا غوثِ اعظم
یہ اِک فردِ عصیاں ہے کیا تیرے آگے
اگر لاکھوں سے ہوں سوا غوثِ اعظم
ترا ایک ہی قطرہ دھو دے گا سارا
ہر اِک صفحۂ پُرخطا غوثِ اعظم
تو بیکس کا کس اور بے بس کا بس ہے
تواں ناتوانوں کی یاغوثِ اعظم
مری جان میں جان آئے جو آئے
مرا جانِ عالم مرا غوثِ اعظم
مری جان کیا جانِ ایماں ہو تازہ
کہ ہے محی دِینِ خدا غوثِ اعظم
مرا سر تری کفش پا پر تصدق
وہ پا کے تو قابل ہے یا غوثِ اعظم
جھلک رُوئے اَنور کی اپنی دکھا کر
تو نوریؔ کو نوری بنا غوثِ اعظم