تیری آمد ہے موت آئی ہے جانِ عیسیٰ تیری دُہائی ہے
تیری آمد ہے موت آئی ہے
جانِ عیسیٰ تیری دُہائی ہے
کیوں وطن اپنا چھوڑ آئی ہے
کیوں سفر کی بلا اُٹھائی ہے(1)
سیکڑوں آفتوں میں پھنسنے کو
کیوں بدن میں یہ جان آئی ہے
اُن کے جلوے ہیں میری آنکھوں میں
اچھی ساعت سے موت آئی ہے
تم کو دیکھا تو دَم میں دَم آیا
آپ آئے کہ جان آئی ہے
مر رہا تھا تم آئے جی اُٹھا
موت کیا آئی جان آئی ہے
اب تو آؤ کہ دم لبوں پر ہے
چہرے پر مردنی بھی چھائی ہے
آئیے وقت ہے یہ آنے کا
دیکھ لیں سب کی جاں پھر آئی ہے
زندگی میں نے پائی مر مر کے
میں نے جی جی کے موت پائی ہے
زندگی کیا تھی جس میں موت آئی
زندگی بعدِ مرگ پائی ہے
موت کا اب نہیں ذرا کھٹکا
زندگی ُشبھ گھڑی سے پائی ہے
مرتے ہی زندگی ملی مجھ کو
موت کے ساتھ جان آئی ہے
حسرتِ دِیدِ یار میں ہم نے
آج مر مر کے موت پائی ہے
جو حسیں دیکھا مر مٹا اس پر
میں نے مر کے حیات پائی ہے
چین کی نیند آج سویا ہوں
موت آرام کی سلائی ہے
شامتوں نے تمہاری گھیرا ہے
موت تم کو یہاں پہ لائی ہے
ذَبح کر ڈالا تو نے او ظالم
نفس تو تو نرا قصائی ہے
طاعتِ حق کا نام سنتے ہی
تجھ کو کم بخت موت آئی ہے
معصیت زہر ہے مگر اوندھے
تو نے سمجھا اسے مٹھائی ہے
کیا بگاڑا تھا تیرا کیوں بگڑا
زہر کی پیالی کیوں پلائی ہے
اچھے جو کام کرنے ہیں کرلو
جان اپنی نہیں پرائی ہے
نوریؔ ہرگز نہیں ہے تو ناری
موتِ اسلام تو نے پائی ہے
واہ کیا بات آپ کی نوریؔ
کیا ہی اچھی غزل سنائی ہے