جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے
جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے
صدقے جاؤں میں تری اَنجمن آرائی کے
بزم آرا ہوں اُجالے تری زیبائی کے
کب سے مشتاق ہیں آئینے خود آرائی کے
ہو غبارِ دَرِ محبوب کہ گردِ رَہ دوست
جزوِ اَعظم ہیں یہی سرمۂ بینائی کے
خاک ہو جائے اگر تیری تمناؤں میں
کیوں ملیں خاک میں اَرمان تمنائی کے
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک کے چمکتے خورشید
لامکاں تک ہیں اُجالے تری زیبائی کے
دلِ مشتاق میں اَرمانِ لقا آنکھیں بند
قابل دِید ہیں اَنداز تمنائی کے
لب جاں بخش کی کیا بات ہے سُبْحَانَ اللّٰہ
تم نے زندہ کیے اعجاز مسیحائی کے
اپنے دامن میں چھپائیں وہ مرے عیبوں کو
اے زہے بخت مری ذِلت و رسوائی کے
دیکھنے والے خدا کے ہیں خدا شاہد ہے
دیکھنے والے تِرے جلوۂ زیبائی کے
جب غبارِ رَہِ محبوب نے عزت بخشی
آئنے صاف ہوئے عینکِ بینائی کے
بار سر پر ہے نقاہت سے گرا جاتا ہوں
صدقے جاؤں ترے بازو کی توانائی کے
عَالِمُ الْغَیْب نے ہر غیب سے آگاہ کیا
صدقے اِس شان کی بینائی و دانائی کے
دیکھنے والے ہو تم رات کی تاریکی میں
کان میں سمع کے اور آنکھ میں بینائی کے
غیبی نطفے ہیں وہ بے علم جنم کے اندھے
جن کو انکار ہیں اس علم و شناسائی کے
اے حسنؔ کعبہ ہی افضل سہی اس در سے مگر
ہم تو خوگر ہیں یہاں ناصیہ فرسائی کے