حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں دل و جان اُن پر نثارا کروں میں
حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان اُن پر نثارا کروں میں
تری کفشِ پا یوں سنوارا کروں میں
کہ پلکوں سے اس کو بُہارا کروں میں
تری رحمتیں عام ہیں پھر بھی پیارے
یہ صدماتِ فرقت سہارا کروں میں
مجھے اپنی رحمت سے تو اپنا کرلے
سوا تیرے سب سے کنارا کروں میں
میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں
ترے دَر سے اپنا گزارا کروں میں
سلاسل مصائب کے اَبرو سے کاٹو
کہاں تک مصائب گوارا کروں میں
خدارا اب آؤ کہ دَم ہے لبوں پر
دَمِ واپسیں تو نظارا کروں میں
ترے نام پر سر کو قربان کرکے
ترے سر سے صدقہ اتارا کروں میں
یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروروں
ترے نام پر سب کو وارا کروں میں
مجھے ہاتھ آئے اگر تاجِ شاہی
تری کفش پا پر نثارا کروں میں
ترا ذکر لب پر خدا دِل کے اندر
یونہی زندگانی گزارا کروں میں
دمِ واپسیں تک ترے گیت گاؤں
محمد محمد پکارا کروں میں
ترے دَر کے ہوتے کہاں جاؤں پیارے
کہاں اپنا دامن پسارا کروں میں
مرا دِین و اِیماں فرشتے جو پوچھیں
تمہاری ہی جانب اِشارہ کروں میں
خدا ایسی قوت دے میرے قلم میں
کہ بدمذہبوں کو سُدھارا کروں میں
جو ہو قلب سونا تو یہ ہے سہاگا
تری یاد سے دِل نکھارا کروں میں
خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد
اگر قلب اپنا دو پارا کروں میں
خدا خیر سے لائے وہ دِن بھی نوریؔ
مدینے کی گلیاں بہارا کروں میں
صبا ہی سے نوریؔ سلام اپنا کہہ دے
سوا اس کے کیا اور چارا کروں میں