خانۂ کعبہ کی شانیں
خانۂ کعبہ کی شانیں
ا للہ عَزَّوَجَلَّ ہم سب کوان لوگوں میں شامل فرما دے جو اس سال حجِ بیتُ اللہ اور
زیارتِ روضۂ اقدَس علٰی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔(آمین)
حمد ِباری تعالیٰ:
سب تعریفیں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے عقلوں کی اپنی توحید کی طرف رہنمائی فرمائی اور انہیں ہدایت دی اور اپنی توحید کو سلامتی کے سفینے میں نجات کا سبب بنایا پس اللہ تعالیٰ کو یکتا ماننے والاکہتا ہے: ” اس (سلامتی کی) کشتی کا چلنا اور ٹھہرنا اللہ عزَّوَجَلَّ کے نام سے ہے۔”پس وہ اپنے محبوب تک پہنچ گئی اور مقصود کو پانے میں کامیاب ہوگئی اور اس ذاتِ الٰہی عَزَّوَّجَل کے مشاہدوں کے سمندر میں تیرنے لگی پس جب اس ذات نے اسے ندا دی تو وہ اس کی لذت میں منہمک ہو گئی ۔
پاک ہے وہ ذات جس نے کعبہ مشرَّفہ کوشان وشوکت عطا فرمائی اور اسے اپنی عظمت اور جلال کے ساتھ خاص کیا اور اسے داخل ہونے والوں کے لئے امن والا گھر بنا دیا۔اوریہ وہی مبارک گھر ہے جس سے اللہ کے پیارے حبیب ،حبیبِ لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہجرت فرمائی مگرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے چھوڑا،نہ اس سے تعلق توڑا اور نہ ہی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دل اس سے ہٹ کردوسرے قبلے کی طرف متوجہ ہوا یہاں تک کہ اللہ عزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر یہ آیاتِ مبارکہ نازل فرمائیں جنہیں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے سنا اور تلاوت فرمایا : قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰىہَا ۪ ترجمۂ کنزالایمان :ہم دیکھ رہے ہیں باربارتمہارا آسمان کی طرف منہ کرناتو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے۔(پ۲،البقرۃ:۱۴۴)(2)
اور اللہ عزَّوَجَلَّ بیتُ اللہ شریف کی عظمت و شان یوں بیان فرماتا ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ96﴾فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿97﴾
ترجمۂ کنزالایمان :بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکّہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما۔ اس میں کھلی نشانیا ں ہیں،ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اِ س میں آئے امان میں ہو اوراللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تواللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔(پ4،اٰل عمران: 96۔97) (۱)
حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: ”اس آیتِ مبارکہ میں”بَيْْت”سے مراد کعبۃ اللہ شریف ہے۔ جس کو اللہ عزَّوَجَلَّ نے بیتُ المعمور کی سیدھ میں زمین میں رکھا۔جیسا کہ مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ و السلام کو جنت سے (زمین پر) اُتارا گیا اور آپ علیہ السلام نے حجِ بیت اللہ فرمایاپھرفرشتوں سے ملاقات ہوئی توانہوں نے عرض کی: ”اے آدم علیہ السلام!آپ کا حج قبول ہوگیا۔اورہم نے آپ سے دوہزار سال پہلے بیت اللہ شریف کا حج کیا تھا۔ آپ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے ان سے دریافت فرمایا: ”تم حج میں کیا پڑھتے تھے ؟” انہوں نے عرض کی : ”ہم سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَر پڑھا کرتے تھے۔”پھر حضرتِ سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام بھی طواف میں یہی پڑھتے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے: ”اے اللہ عزَّوَجَلَّ ! میری اولاد میں اس گھر کو تعمیر کرنے والا بنا۔تواللہ عزَّوَجَلَّ نے وحی فرمائی کہ”میں اپنا گھر تیری اولاد میں سے اپنے خلیل (حضرت) ابراہیم (علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام)سے بنواؤں گا۔میں اس کے ہاتھوں اس کی تعمیر کا فیصلہ کر چکا ہوں۔” جب حضرتِ سیِّدُنا نوح علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کے عہدمیں طوفان آیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بیت اللہ شریف کو چوتھے آسمان پر اٹھا لیا، وہ سبز زمرد کا تھا اور اس میں جنت کے چراغوں میں سے ایک چراغ تھا ۔
حضرتِ سیِّدُنا جبرائیل علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام حَجَرِ اَسْوَد کو اُٹھاکرجَبَلِ ابوقُبَیْس میں چھوڑآئے تاکہ غرق ہونے سے محفوظ ہو جائے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃوالسلام کے زمانہ تک بیت اللہ کی جگہ خالی رہی۔جب آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ہاں حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام اور حضرتِ سیِّدُنا اسحاق علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام پیدا ہوئے تو اللہ عزَّوَجَلَّ نے آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام کو بیت اللہ شریف کی بنیادرکھنے کا حکم دیا ۔آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی : ”یا اللہ عزَّوَجَلَّ! مجھے اس کی نشانی بیان فرما دے۔”تو اللہ عزَّوَجَلَّ نے بیت اللہ شریف کی مقدار ایک بادَل بھیجا جو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ ساتھ چلتا رہا یہا ں تک کہ آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام مکّہ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا پہنچے تو بیت اللہ شریف کے مقام پر وہ بادل رُک گیا۔آپ کوپکاراگیا:”اے ابراہیم (علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام)! اس بادل کے سائے پر بنیاد رکھو،نہ کم کرنا نہ زیادہ۔” حضرتِ سیِّدُنا جبرائیل علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کو بتاتے جاتے اور وہ عمارت بناتے جاتے۔ حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام آپ علیہ الصلٰوۃو السلام کوپتھر اٹھا اٹھا کر پکڑاتے۔”
اللہ عزَّوَجَلَّ کے مذکورہ فرمان میں ”اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ” سے مرادواضح آیا ت ہيں جواجر و ثواب کے اضافے پر دلالت کرتی ہیں۔اور ”وَمَن دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنا” سے مراد یہ ہے کہ وہ جہنم سے امن میں ہو گیا،بعض نے کہا کہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں ہو گیا، بعض نے کہا کہ شرک سے محفوظ ہوگیا ۔ اور ”اِسْتِطَاعَت” سے مرادیہ ہے کہ زادِ راہ اور سفر پر قادر ہو اور بدن صحیح ہونیز راستہ بھی پُر امن ہو ۔ اور”وَمَنْ کَفَرَ ” کا مطلب یہ ہے کہ جو حج کرنے کو نیکی اور نہ کرنے کو گناہ نہ سمجھے۔
اللہ کے پیارے حبیب ،حبیب ِ لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:”جس نے حج کیا اور فحش کلامی نہ کی اور فسق نہ کیا تو وہ گناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پید اہواتھا۔” ( صحیح البخاری ،کتاب الحج ، باب قول اللہ” فلا رفث”الحدیث ۱۸۱۹، ص ۱۴۲)
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبئپاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو حرمین شریفین( یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ) میں سے کسی حرم میں مرے اُسے قیامت کے دن اَمن والوں میں سے اٹھایا جائے گا۔”
(شعب الایمان للبیھقی،باب فی المناسک،فضل الحج والعمرۃ،الحدیث۴۱۵۸،ج۳،ص۴۹0)
حدیث ِ پاک میں ہے کہ ”بیتُ اللہ شریف کا طواف کثرت سے کروکیونکہ تم بروزِ قیامت اپنے نامۂ اعمال میں اسے سب سے افضل اور سب سے قابلِ رشک عمل پاؤ گے۔”اورایک روایت میں ہے کہ”جو بارش میں طواف کے سات چکر لگائے اس کے گذشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔”
(احیاء علوم الدین،کتاب اسرار الحج،الفصل الاول،فی فضائل الحج، ج۱، ص۳۲۳)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے پچاس بار بیت اللہ شریف کا طواف کیاتو وہ گناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پید اہواتھا۔”
(جامع التر مذی ،ابواب الحج ، باب ماجا ء فی فضل الطواف ، الحدیث ۸۶۶،ص ۱۷۳۳)
منقول ہے کہ ”اللہ عزَّوَجَلَّ نے بیتُ اللہ سے وعدہ فرمایا کہ ہر سال چھ لاکھ افراد اس کا حج کریں گے، اگر کم ہوئے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ان کی کمی پوری فرمادے گا ۔اور بروزِ قیامت کعبہ مشرَّفہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَتَعْظِیْماً پہلی رات کی دُلہن کی طرح اُٹھایا جائے گا تو جن لوگوں نے اِس کا حج کیاوہ اِس کے پردوں کے ساتھ لٹکے ہوں گے اوراِس کے گرد چکر لگارہے ہوں گے یہاں تک کہ یہ جنت میں داخل ہوگا تووہ بھی اس کے ساتھ داخل ہو جائیں گے ۔”
(احیاء علوم الدین،کتاب اسرار الحج،الباب الاول،الفصل الاول،فضیلۃ البیت ومکۃ المشرفۃ،ج۱،ص۳۲۴ )
حدیثِ پاک میں ہے کہ” حجرِاسود ایک جنَّتی پتھر ہے۔ اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔اس کی دو آنکھیں اور زبان ہوگی جس سے وہ کلام کریگا اورہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے اسے حق وصداقت کے ساتھ بوسہ دیا ہوگا۔ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کواکثربوسہ دیا کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بار اسے بوسہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا: ”میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نقصان دیتاہے نہ نفع،اگر میں نے رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی:”اے امیرالمؤمنین!یہ نفع بھی دیتا ہے اور نقصان بھی۔” تو حضرتِ سیِّدُنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”اے ابو الحسن! یہاں آنسو بہائے جاتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔”
امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِ یْم نے عرض کی:”اے امیرالمؤمنین !یہ نفع ونقصان اللہ عزَّوَجَلَّ کے اذن سے دیتا ہے۔” تو حضرتِ سیِّدُنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:”وہ کیسے؟”توامیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِ یْم نے عرض کی : ”وہ یوں کہ اللہ عزَّوَجَلَّ نے جب حضرتِ سیِّدُناآدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی اولادسے عہد لیا تو اس عہد نامہ کی ایک تحریر لکھ کراس پتھر کو کِھلا دی۔اب یہ مومنوں کے لئے وفائے عہدکی گواہی دے گا اور کافروں کے خلاف انکار کی۔” حجرِ اسود کو بوسہ دیتے وقت لوگ جو کلمات پڑھتے ہیں،ان کا یہی معنی ہے(اور وہ یہ ہیں : ”اَللّٰھُمَّ اِیْمَانًا بِکَ وَتَصْدِیقًا بِکِتَابِکَ وَوَفَآءً بِعَھْدِکَ وَاتِّبَاعًا لِّسُنَّۃِ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍصلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی اے اللہ عزَّوَجَلَّ ! میں تجھ پر ایمان لاتے ہوئے ،تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے، تیرے عہد کو پورا کرتے ہوئے اور تیرے نبی حضرتِ سیِّدُنا محمد
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی پیروی کرتے ہوئے (اِسے بوسہ دیتا ہوں)۔” اور حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” مکّۂ مکرَّمہ میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ، ایک روزہ ایک لاکھ روزوں کے برابر ہے اورایک درہم صدقہ کرناایک لاکھ درہم صدقہ کرنے کی طرح ہے۔ اسی طرح ہر نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔”
(احیاء علوم الدین ،کتاب اسرارالحج،الباب الاول،الفصل الاول،فضیلۃ البیت ومکۃ المشرفۃ،ج۱،ص۳۲۴۔۳۲۵)
حدیثِ پاک میں ہے کہ ”اللہ عزَّوَجَلَّ ہر رات اہلِ زمین کی طرف نظرِ رحمت فرماتاہے اور سب سے پہلے اہلِ حرم کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اوراہلِ حرم میں بھی سب سے پہلے مسجد ِحرام والوں پر نظرِ رحمت فرماتاہے۔پھر جس کو طواف کرتے ہوئے پاتاہے اسے بخش دیتا ہے اور جسے نماز میں مشغول پاتا ہے اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جسے کعبہ کی طرف رخ کئے ہوئے پاتا ہے اسے بھی معاف فرمادیتا ہے ۔”
(احیاء علوم الدین ،کتاب اسرارالحج،الباب الاول،الفصل الاول،فضیلۃ البیت ومکۃ المشرفۃ،ج۱،ص۳۲۵)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ”اس بیت اللہ شریف پر ہر دن ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔ ساٹھ طواف کرنے والوں کے لئے ،چالیس نماز پڑھنے والوں کے لئے اور بیس اسے دیکھنے والوں کے لئے ۔”
(احیاء علوم الدین،کتاب اسرار الحج، الباب الاول،الفصل الاول،فی فضائل الحج ، ج۱، ص۳۲۲۔المعجم الکبیر ،الحدیث۱۱۴۷۵،ج۱۱،ص۱۵۶)
شہنشاہِ خوش خِصال، پیکر ِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکا فرمانِ حقیقت بیان ہے: ” حَجون اوربقیع کو ان کے اطراف سے پکڑا جائے گا اور جنت میں بکھیر دیا جائے گا اور یہ دونوں مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ کے قبرستان ہیں ۔”
(کشف الخفاء، حرف الحاء المھملۃ، الحدیث۱۱۱0، ج۱، ص۳۱۲، الحجر بدلہ الحَجون)
حضرتِ سیِّدُنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختاربِاذنِ پروردْگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمقبرستان کے کنارے تشریف فرماتھے جبکہ اس وقت وہاں قبرستان نہ تھا، اورارشاد فرمایا: ”اللہ عزَّوَجَلَّ زمین کے اس ٹکڑے اور اس حرم سے سترہزار ایسے افراد اٹھائے گا جن کے چہرے چودھویں کے چاندکی طرح ہوں گے،وہ سب بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے،ان میں سے ہر ایک ستر ہزار افراد کی شفاعت کریگا۔”
حضرتِ سیِّدُنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکر ِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” جو مکہ کی گرمی پر ایک گھڑی صبر کریگا جہنم اس سے ایک سو سال کی مسافت دور ہو جائے گی۔” (اخبار مکۃ للفاکھی،ذکر الصبر علی حر مکۃ،الحدیث۱۵۶۵/۱۵۶۶،ج۲،ص310۔311)
حضرتِ سیِّدُنا جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ”یہ گھر اسلام کا ستون ہے،جوحج یا عمرہ کرنے والااپنے گھر سے بیت اللہ شریف کے ارادے سے نکلے، اگر اس کی روح قبض ہوجائے تو اللہ عزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے کہ اُسے جنت میں داخل فرمادے، اوراگر وہ (حج کرکے)پلٹا تو اَجروغنیمت کے ساتھ لوٹے گا۔”
(المعجم الاوسط،الحدیث۹0۳۳،ج۶،ص۳۵۲۔فردوس الاخبار للدیلمی، باب الھاء ،الحدیث۷۲0۸، ج۲،ص۳۸۲)
طواف ِکعبہ کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(1) وَلْیَطَّوَّفُوۡا بِالْبَیۡتِ الْعَتِیۡقِ ﴿29﴾
ترجمۂ کنزالایمان :اور اس آزاد گھر کا طواف کریں ۔( پ 17،الحج :29)
2۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” شانِ نزول :سیِّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسند خاطر تھا اور حضور اس اُمید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نماز ہی میں کعبہ کی طرف پِھر گئے، مسلمانوں نے بھی آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا۔ مسئلہ :اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی رضا منظور ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم ہی کی خاطر کعبہ کو قبلہ بنایا گیا۔”
1۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”شانِ نزول: یہود نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ بیت المقدس ہمارا قبلہ ہے، کعبہ سے افضل اور اس سے پہلا ہے۔ انبیاء کا مقامِ ہجرت و قبلۂ عبادت ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ کعبہ افضل ہے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس میں بتایا گیا کہ سب سے پہلا مکان جس کو اللہ تعالیٰ نے طاعت و عبادت کے لئے مقرَّر کیا، نماز کا قبلہ، حج اور طواف کا موضِع بنایا جس میں نیکیوں کے ثواب زیادہ ہوتے ہیں، وہ کعبہ معظمہ ہے جو شہرِ مکہ معظمہ میں واقع ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ کعبۂ معظمہ بیت المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔ (اس میں ایسی نشانیاں ہیں )جو اس کی حرمت و فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرند کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو اِدھر اُدھر ہٹ جاتے ہیں اور جو پرند بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں، اسی سے انہیں شفا ہوتی ہے۔ اور وُحوش ایک دوسرے کو حرم میں ایذا نہیں دیتے حتیّٰ کہ کتّے اس سرزمین میں ہَرَن پر نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے اور لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیأ اس کے گرد حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی کا قصد کرتا ہے برباد ہوجاتا ہے۔ انہیں آیات میں سے مقامِ ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان فرمایا گیا ۔ اور مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ شریف کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوتے تھے اور اس میں آ پ کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو باوجود طویل زمانہ گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے ابھی تک کچھ باقی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل و جنايت کرکے حرم میں داخل ہو تو وہاں نہ اس کو قتل کیاجائے، نہ اس پر حد قائم کی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔”