رُباعیات کفشِ پا اُن کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزت
رُباعیات
کفشِ پا اُن کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزت
خاکِ پا اُن کی مَلوں منہ پہ تو پاؤں طَلعَت
طیبہ کی ٹھنڈی ہوا آئے تو پاؤں فرحت
قلبِ بے چین کو چین آئے تو جاں کو راحت
منظورِ نظر ہے بس ثنائے سرکار
جان دوجہاں کی جو ہیں سر ہر کار
نوریؔ کافی ہے دو جہاں میں مجھ کو
مقبول اگر ہوں اُن کو مرے اَفکار
گلہائے ثنا سے مہکتے ہوئے ہار
سُقْمِ شرعی سے ہیں مُنَزَّہ اَشعار
دشمن کی نظر میں یہ نہ کھٹکیں کیونکر
ہیں پھول مگر ہیں چشمِ اَعدا میں خار
حد بھر کا زِیاں کار سیہ کار ہوں میں
اُمت میں بڑا سب سے گنہگار ہوں میں
پر دِل کو ہے اپنے اِس سے ڈھارَس
فرماتا ہے اللّٰہ کہ غَفَّار ہوں میں
بدکار ہوں مجرم ہوں سیہ کار ہوں میں
اِقرار ہے اس کا کہ گنہگار ہوں میں
بایں ہمہ ناری نہیں نوری ہوں حضور
مومن ہوں تو فردوس کا حق دار ہوں میں
دنیا تو یہ کہتی ہے ُسخنور ہوں میں
ارے شعراء کا آج سروَر ہوں میں
میں یہ کہتا ہوں یہ غلَط ہے سو بار غلَط
سچ تو ہے یہی کہ سب سے اَحقر ہوں میں
ظالم ہوں جفاکار و ستم گر ہوں میں
عاصی و خطا کار بھی حد بھر ہوں میں
یہ سب ہے مگر پیارے تری رحمت سے
سنی ہوں مسلمان مقرر ہوں میں