عوام وخواص کی عید کی ضروریات:
عوام وخواص کی عید کی ضروریات:
حضرتِ سیِّدُنامحمدبن ابی فَرَج رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”مجھے ماہِ رمضان میں ایک خادمہ کی ضرورت پڑی جوہمیں کھانا تیار کردے،میں نے بازارمیں ایک خادمہ کو دیکھا جس کی کم قیمت میں بولی دی جارہی تھی، اس کاچہرہ زرد، بدن کمزوراورجِلد خشک تھی۔ میں اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید کر گھر لے آیا اورکہا: ”برتن پکڑو اور رمضا ن کی ضرور ی اشیاء کی خریداری کے لئے میرے ساتھ بازار چلو۔” تو وہ کہنے لگی: ”اے میرے آقا! میں تو ایسے لوگوں کے پاس تھی جن کا پورا زما نہ رمضان ہوا کرتا تھا۔” اس کی یہ بات سن کر میں سمجھ گیا کہ یہ ضرور اللہ عزَّوَجَلَّ کی نیک بندی ہوگی۔ وہ ماہِ رمضا ن میں ساری رات عبادت کرتی اورجب آخری رات آئی تومیں نے اس کو کہا:”عید کی ضروری اشیا ء خریدنے کے لئے ہمارے ساتھ بازار چلو۔” تو وہ پوچھنے لگی: ”اے میرے آقا! عام لوگوں کی ضروریات خریدیں گے یا خاص لوگوں کی؟ میں نے اس سے کہا: ”اپنی بات کی وضاحت کرو؟” تواس نے کہا: ”عام لوگوں کی ضروریات تو عید کے مشہور کھانے ہیں، جبکہ خاص لوگوں کی ضروریات مخلوق سے کناراکَش ہونا،خدمت کے لئے فارغ ہونا، نوافل کے ذریعے اللہ عزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرنااور عاجزی وانکساری کرناہے۔ ‘ ‘
یہ سُن کر میں نے کہا: ”میری مراد کھانے کی ضروری اشیاء ہیں ۔” اس نے پھر پوچھا: ”کون سا کھانا؟ جو جسموں کی غذا ہے یا دِلوں کی؟” تومیں نے کہا: ”اپنی بات واضح کرو؟” تواس نے مجھے بتایا: ”جسموں کی غذا تومعروف کھانا اور خوراک ہے جبکہ دلوں کی غذا گناہوں کو چھوڑنا، اپنے عیب دُور کرنا، محبوب کے مشاہدہ سے لُطف اندوز ہونا اور مقصود کے حصول پر راضی ہونا لیکن ان چیزوں کے لئے خشوع، پرہیزگاری، تکبر کو چھوڑنا، مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرنا اور ظاہر وباطن میں اس پر بھروسہ کرنا ضروری ہے۔”پھر وہ لو نڈ ی نما ز کے لئے کھڑی ہو گئی، اس نے پہلی رکعت میں پوری سورۂ بقرہ پڑھی، پھراٰل عمران شروع کر دی، پھر ایک سورت ختم کر کے دوسری سورت شروع کرتی رہی یہا ں تک کہ سورۂ ابراہیم کی ا س آیت تک پہنچ گئی:
(2) یَّتَجَرَّعُہٗ وَ لَا یَکَادُ یُسِیۡغُہٗ وَیَاۡتِیۡہِ الْمَوْتُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ ؕ وَمِنۡ وَّرَآئِہٖ عَذَابٌ غَلِیۡظٌ ﴿17﴾
ترجمۂ کنزالایمان :بمشکل اس کاتھوڑاتھوڑاگھونٹ لے گا اورگلے سے نیچے اتارنے کی امیدنہ ہوگی اوراسے ہرطرف سے موت آئے گی اورمرے گانہیں اوراس کے پیچھے ایک گاڑھا عذاب۔ ( ۱ )(پ13، ابراھیم:17)
پھر وہ روتی ہوئی اسی آیت کودہراتی رہی یہا ں تک کہ بے ہو ش ہو کر زمین پر گرپڑی جب میں نے اُسے حرکت دی تو اس کی رُوح قَفَسِ عُنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
سبحان اللہ عزَّوَجَلَّ! ان لوگوں کی خوبیاں ہیں جنہوں نے اپنے چہروں کو غم وحزن کے آنسوؤں سے دھویا، ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ اورتلاوتِ کلام باری تعالیٰ سے راتوں میں اپنی آنکھوں کوبیدار رکھا اوراللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنے قدموں پر کھڑے رہے اور اچھے اعمال بجالانے کی کوشش کرتے رہے۔ پس ان کا ہر لمحہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں جیسا ہے۔
میرے پیارے اسلامی بھائیو! کتنا نیک بخت ہے وہ شخص! جس کو اللہ عزَّوَجَلَّ نے قبولیت کی خلعت بخشی، کتنا انعام و اکرام ہے اس شخص پر! جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائے مقصود تک پہنچایا۔ اور کتنا بدبخت ہے وہ شخص! جس کے روزے مردود ہو گئے اور گناہوں پر اس کی پکڑ ہو گئی، اس کے ماہ وسال بیکار گزر گئے اور اس نے اپنے نفس کی خواہش کو رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضری پر ترجیح دی یہا ں تک کہ اس کی موت کا وقت آگیا۔
1۔۔۔۔۔۔مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰحضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”حدیث شریف میں ہے کہ جہنمی کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ جب وہ منہ کے پاس آئے گا تو اس کو بہت ناگوار معلوم ہوگا۔ جب اور قریب ہو گاتو اس سے چہرہ بھُن جائے گا اور سر تک کی کھال جل کر گر پڑ ے گی۔ جب پئے گا توآنتیں کٹ کر نکل جائیں گی۔ (اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ) یعنی ہر عذاب کے بعد اس سے زیادہ شدید و غلیظ عذاب ہوگا۔ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ۔”