islam
غیبت
کسی کو غائبانہ برا کہنا’ یا پیٹھ پیچھے اس کا کوئی عیب بیان کرنا یہی غیبت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے صحابہ کرام علیھم الرضوان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے۔ صحابہ علیھم الرضوان نے کہا کہ اﷲعزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم زیادہ جاننے والے ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشادفرمایا کہ تمہارا اپنے بھائی کی ان باتوں کو بیان کرنا جن کو وہ ناپسند سمجھتا ہے۔ یہی غیبت ہے تو صحابہ علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّمیہ بتایئے کہ اگر میرے اس دینی بھائی میں واقعی وہ باتیں موجود ہوں۔ تو کیا ان باتوں کا ذکر کرنا بھی غیبت کہلائے گا؟ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر اس کے اندر وہ باتیں واقعی ہوں گی جبھی تو تم اس کی غیبت کرنے والے کہلاؤ گے اور اگر اس میں وہ باتیں نہ ہوں اور تم اپنی طرف سے گھڑ کر کہو گے جب تو تم اس پر بہتان لگانے والے ہو جاؤ گے جو ایک دوسرا گناہ کبیرہ ہے جس کا کرنے والا جہنم کا ایندھن بنے گا۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ ، باب تحریم الغیبۃ ، رقم ۲۵۸۹،ص۱۳۹۷)
یاد رکھو غیبت اتنا بڑا گناہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہاں تک فرمایا کہ
اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا یعنی غیبت زنا سے بڑا گناہ ہے۔
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ ، باب الترہیب من الغیبۃ والبھت بیانھما والترغیب فی ردھما ، رقم ۲۴،ج۳،ص۳۳۱)
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میں نے معراج کی رات میں کچھ لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنے ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ کھرچ کر نوچ رہے ہیں میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں لوگوں کی غیبت اور آبروریزی کیا کرتے تھے۔
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب وغیرہ ، باب الترہیب من الغیبۃ والبھت، رقم ۲۱،ج۳،ص۳۳۰)
یاد رکھو کہ پیٹھ پیچھے کسی آدمی کی ان باتوں کو بیان کرنا جن کو وہ پسند نہیں کرتا یہ غیبت ہے خواہ اس کا کوئی ظاہری عیب ہو یا باطنی’ اس کا پیدائشی عیب ہو یا اس کا اپنا پیدا کیا ہوا عیب ہو۔ اس کے بدن’ اس کے کپڑوں’ اس کے خاندان و نسب’ اس کے اقوال و افعال چال ڈھال ‘ اس کی بول چال غرض کسی عیب کو بھی بیان کرنا یا طعنہ مارنا یہ سب غیبت ہی میں داخل ہے لہٰذا اس غیبت کے گناہ سے ہر مسلمان مرد وعورت کو بچنا لازم اور ضروری ہے۔
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ۔
وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُكُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنۡ یَّاۡكُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ۔
”اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی یہ پسند کریگا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا۔(پ26،الحجرات:12)
مطلب یہ ہے کہ غیبت اس قدر گھناؤنا گناہ ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا تو جس طرح تم ہر گز ہر گز کبھی یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کی لاش کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاؤ۔ اسی طرح ہرگز ہرگز کبھی کسی کی غیبت مت کیا کرو۔
کن کن لوگوں کی غیبت جائز ہے؟:۔حضرت علامہ ابو زکریا محی الدین
بن شرف نووی (متوفی۶۷۶ھ) نے مسلم شریف کی شرح میں لکھا ہے کہ شرعی اغراض و مقاصد کے لئے کسی کی غیبت کرنی جائز اور مباح ہے اور اس کی چھ صورتیں ہیں۔
اول)مظلوم کا حاکم کے سامنے کسی ظالم کے ظالمانہ عیوب کو بیان کرنا۔ تاکہ اس کی داد رسی ہوسکے۔
دوئم)کسی شخص کی برائیوں کو روکنے کے لئے کسی صاحب اقتدار کے سامنے اس کی برائیوں کو بیان کرنا تاکہ وہ اپنے رعب داب سے اس شخص کو برائیوں سے روک دے۔
سوئم)مفتی کے سامنے فتویٰ طلب کرنے کے لئے کسی کے عیوب کو پیش کرنا۔
چہارم)مسلمانوں کو شروفساد اور نقصان سے بچانے کے لئے کسی کے عیوب کو بیان کردینا مثلاََ جھوٹے راویوں’ جھوٹے گواہوں’ بدمذہبوں کی گمراہیوں’ جھوٹے مصنفوں اور واعظوں کے جھوٹ اور ان لوگوں کے مکر و فریب کو لوگوں سے بیان کردینا۔ تاکہ لوگ گمراہی کے نقصان سے بچ جائیں اسی طرح شادی بیاہ کے بارے میں مشورہ کرنے والے سے فریق ثانی کے واقعی عیبوں کو بتا دینا یا خریداروں کو نقصان سے بچانے کے لئے سامان یا سودا بیچنے والے کے عیوب سے لوگوں کو آگاہ کردینا۔
پنجم)جو شخص علی الاعلان فسق و فجور اور قسم قسم کے گناہوں کا مرتکب ہو مثلاََ چور’ ڈاکو’ زنا کار’ خیانت کرنے والا’ ایسے اشخاص کے عیوب کو لوگوں سے بیان کردینا’ تاکہ لوگ نقصان سے محفوظ رہیں اور ان لوگوں کے پھندوں میں نہ پھنسیں۔
ششم)کسی شخص کی پہچان کرانے کے لئے اس کے کسی مشہور عیب کو اس کے نام کے ساتھ ذکر کردینا۔ جیسے حضرات محدثین کا طریقہ ہے کہ ایک ہی نام کے چند راویوں میں امتیاز اور ان کی پہچان کے لئے اعمش (چندھا) اعرج (لنگڑا) اعمیٰ (اندھا) احول
(بھینگا) وغیرہ عیبوں کو انکے ناموں کے ساتھ ذکر کردیتے ہیں۔ جس کا مقصد ہرگزہرگز نہ توہین و تنقیص ہے نہ ایذا رسانی بلکہ اس کا مقصد صرف راویوں کی شناخت اور ان کی پہچان کا نشان بتانا ہے۔
(شرح صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ والادب ، باب تحریم الغیبۃ ، تحت حدیث الغیبۃ ذکر ک افاک…الخ، ج۱،ص۳۲۲)
اوپر ذکر کی ہوئی صورتوں میں چونکہ کسی کے عیبوں کو بیان کر دینا ہے اسلئے بلا شبہ یہ غیبت تو ہے۔ لیکن ان صورتوں میں شریعت نے جائز رکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کر دے تونہ کوئی حرج ہے نہ کوئی گناہ بلکہ بعض صورتوں میں اس قسم کی غیبت مسلمانوں پر واجب ہو جاتی ہے۔ مثلاََ ایسے موقعوں پر کہ اگر تم نے کسی کے عیب کو بیان نہ کر دیا تو کسی مسلمان کے نقصان میں پڑ جانے کا یقین یا غالب گمان ہو۔ مثال کے طور پر ایک مسلمان رقم لے کر جا رہا ہو اور ایک سفید پوش ڈاکو تسبیح و مصلیٰ لئے بزرگ بن کر اس مسلمان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو اور مسلمان بالکل ہی اس ڈاکو کے بارے میں لاعلم ہو اور تم کو یقین ہے کہ یہ ڈاکو ضرور ضرور اس بھولے بھالے مسلمان کو دھوکہ دے کر لوٹ لے گا اور تم اس ڈاکو کے عیب کو جانتے ہو تو اس صورت میں ایک بھولے بھالے مسلمان کو نقصان سے بچانے کے لئے ڈاکو کے عیب کو اس مسلمان سے بیان کر دینا تم پر واجب ہے۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہنے اسی بات کو اسطرح بیان فرمایا ہے کہ
اگر بینی کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش می مانی گناہ است
یعنی تم اگر دیکھو کہ ایک اندھا جارہا ہے اور اس کے آگے کنواں ہے تو تم پر لازم ہے کہ اندھے کو بتا دو کہ تیرے آگے کنواں ہے اس سے بچ کر چل۔ اور اگر تم اس کو دیکھ
کر چپ رہ گئے اور اندھا کنویں میں گر پڑاتو یقیناً تم گنہگار ٹھہرو گے۔