islam
لا لچ
یہ بہت ہی بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے اﷲتعالیٰ کی طرف سے بندے کو جو رزق و نعمت اور مال و دولت یا جاہ ومرتبہ ملا ہے اس پر راضی ہو کر قناعت کر لینا چاہے۔ دوسروں کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اس کو حاصل کرنے کے پھیر میں پریشان حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا یہی جذبہ حرص و لالچ کہلاتا ہے اور حرص و طمع در حقیقت انسان کی ایک پیدائشی خصلت ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر آدمی کے پاس دومیدان بھر کر سونا ہوجائے تو پھر وہ ایک تیسرے میدان کو طلب کریگا کہ وہ بھی سونے سے بھر جائے اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو شخص اس سے توبہ کرے اﷲ تعالیٰ اس
کی توبہ کو قبول فرمالے گا۔
(صحیح مسلم ، کتاب الزکاۃ ، باب لوان لابن آدم وادیین لابتغی ثالثاً ، رقم ۱۰۴۸،ص۵۲۱)
اور ایک حدیث میں ہے کہ ابن آدم بوڑھا ہو جاتاہے۔ مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک امید دوسری مال کی محبت۔
(صحیح البخاری ، کتاب الرقاق ، باب من بلغ ستّین سنۃ، رقم ۶۴۲۰،ج۴،ص۲۲۴)
لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک’ لباس’ مکان’ سامان’ دولت’ عزت’ شہرت’ غرض’ ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ اگر لالچ کا جذبہ کسی انسان میں بڑھ جاتا ہے تو وہ انسان طرح طرح کی بداخلاقیوں اور بے مروتی کے کاموں میں پڑجاتا ہے اور بڑے سے بڑے گناہوں سے بھی نہیں چوکتا۔ بلکہ سچ پوچھئے تو حرص و طمع اور لالچ درحقیقت ہزاروں گناہوں کا سر چشمہ ہے اس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہے۔
لالچ کاعلاج :۔
۔اس قلبی مرض کا علاج صبر و قناعت ہے یعنی جو کچھ خدا کی طرف سے بندے کو مل جائے اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے اور اس عقیدہ پر جم جائے کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں رہتا ہے۔ اسی وقت فرشتہ خدا کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا ہے۔ انسان کی عمر’ انسان کی روزی’ انسان کی نیک نصیبی’ انسان کی بدنصیبی’ یہی انسان کا نوشتہ تقدیر ہے۔ لاکھ سرما رو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اس کے بعد یہ سمجھ کر کہ خدا کی رضا اور اس کی عطا پر راضی ہوجاؤ اور یہ کہہ کر لالچ کے قلعے کو ڈھا دو کہ جو میری تقدیر میں تھا وہ مجھے ملا اور جو میری تقدیر میں ہوگا وہ آئندہ ملے گا اور اگر کچھ کمی کی وجہ سے قلب میں تکلیف ہو اور نفس ادھر ادھر لپکے تو صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔ اسی طرح رفتہ رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص و لالچ کا اندھیرا بادل چھٹ جائے گا یاد رکھو! ؎
حرص ذلت بھری فقیری ہے
جو قناعت کرے’ تو نگر ہے