لکڑی کا بُرادہ میدہ بن گیا:
لکڑی کا بُرادہ میدہ بن گیا:
حضرتِ سیِّدُناابو مسلم خولانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ صدقہ و ایثار کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ بعض اوقات اپنی غذا بھی صدقہ کر دیتے اورخود رات کو بھوکے سوتے۔ ایک صبح اس حالت میں کی کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے گھر سوائے ایک درہم کے کچھ نہ تھا۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی زوجۂ محترمہ نے عرض کی: ” اس درہم سے آٹا خرید لائیں تاکہ ہم اسے گوندھ کر بچوں کے لئے روٹی پکا لیں،بچے مزید بھوک برداشت نہیں کریں گے۔”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک درہم اور توشہ دان (کھانے کا برتن)لیا اور بازار کی طرف چل
پڑے۔ سردی بہت شدید تھی، راستے میں آپ کوایک سائل ملا، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف سے جانے لگے تو اس نے آپ کو روک لیااور اپنی تنگدستی بیان کرتے ہوئے آپ کو قسم دی۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے وہ درہم اسے دے دیا۔ پھر یہ
فکر لاحق ہو گئی کہ اپنے اہل و عیال کے پاس کیا لے کر جاؤں گا۔ چنانچہ، اسی فکر میں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ایک مضبوط درخت کے قریب سے گزرے لوگ اس کو چیر رہے تھے۔ انہوں نے توشہ دان کھولااور آرے سے چیرے جانے کے باعث جو برادہ گر رہا تھا اس سے توشہ دان بھر کر منہ بند کر دیا اور گھر جا کر بیوی کو کچھ بتائے بغیر رکھ دیا اور خود مسجد کی طرف چل پڑے۔ جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی اہلیہ محترمہ نے توشہ دان کھول کر دیکھاتو اس میں سفیدباریک میدہ موجود تھا۔ اس نے گوندھ کر بچوں کے لئے کھانا پکایا۔ بچوں نے خوب سیر ہو کر کھایااورپھر کھیلنے لگ گئے۔ جب سورج خوب بلند ہو گیاتوآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بیوی،بچوں کی بھوک کاخوف محسوس کرتے ہوئے گھر تشریف لائے۔جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بیٹھ گئے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بیوی نے دستر خوان اور کھانا لا کر سامنے رکھا، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کھانا کھاکر فارغ ہوئے تو پوچھا: ”یہ کھانا کہاں سے آیا؟” عرض کی: ”میرے سرتاج! اسی توشہ دان سے جو آپ لے کر آئے تھے۔”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بہت حیران ہوئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لطف و کرم اور حُسنِ کاریگری پر اس کا شکر ادا کیا ۔
اے میرے اسلامی بھائیو! دیکھو! اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ پرکیسا لطف وکرم فرماتاہے اور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ بھی کیسا توکُّل کرتے ہیں پس دنیا کے معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے لئے کافی ہو جاتا ہے اورانہیں اپنے فضل و کرم سے رزق عطا فرماتا اور ان کے ساتھ اپنے شایانِ شان معاملہ فرماتا ہے۔
حضرتِ سیِّدُناابومعاویہ اسوَد علیہ رحمۃاللہ الصمد نابینا تھے ۔قرا ءَ تِ قرآن بہت زیادہ پسند تھی۔ جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ قرآنِ کریم کھولتے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بینائی لوٹ آتی اور جب قرا ءَ ت سے فارغ ہو تے تو بینائی چلی جاتی۔ایک مرتبہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو ندا کی گئی: ”ہم نے تمہاری بینائی اس وجہ سے زائل نہیں کی کہ ہم تیرے معاملے میں بخیل ہیں بلکہ ہمیں اس پر غیرت آئی کہ تم ہمارے سوا کسی کو دیکھو۔”