مذا ق کرنے والے درزی کو بھی دُعائے خیر:
مذا ق کرنے والے درزی کو بھی دُعائے خیر:
منقول ہے کہ ایک بار حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے کسی درزی سے قمیص سلوائی۔ وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام ومرتبہ سے ناواقف تھا۔اس نے مذاق کرتے ہوئے دائیں آستین اتنی تنگ کر دی کہ اس میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ بمشکل داخل ہوتا اور بائیں اتنی کشادہ کر دی کہ اس میں سر بھی داخل ہوسکتا تھا۔ جب قمیص آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے! تنگ آستین وضو میں اوپر چڑھانے کے لئے بہتر ہے اور کھلی آستین کتاب رکھنے کے لئے موزوں ہے ۔”اسی دوران خلیفۂ وقت کا قاصد دس ہزار درہم لے کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ درزی کے پاس ہی اس کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوگئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاصد کو فرمایا: ”اس درزی کو کپڑوں کی سلائی دے دو۔” جب درزی نے قاصد سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پوچھا تواس نے بتایا: ”یہ حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی ہیں۔”یہ سنتے ہی وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے ہو لیا اورقدم بوسی کرکے معذرت کی پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ہی رہنے لگا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلقۂ احباب میں شامل ہو گیا۔
حضرت سیِّدُنا ربیع علیہ رحمۃاللہ الولی فرماتے ہیں: ”جب میرا نکاح ہوا تو حضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے دریافت فرمایا: ”تو نے کتنا مہر مقرَّر کیا؟” عرض کی :”تیس(30 )دینار۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا:” اپنی اہلیہ کو کتنی رقم دی؟”
میں نے عرض کی:”چھ دینار۔” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے ایک تھیلی بھجوائی جس میں چوبیس (24)دینار تھے اور 201 سنِ ہجری مجھے جامع مسجد میں مؤذن لگوا دیا۔”
(شعب الایمان للبیھقی،باب فی الجود والسخاء، الحدیث۱0۹۶۲،ج۷، ص۴۵۲)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشادِ پاک ہے کہ ”اپنی جان پر سب سے زیادہ ظلم کرنے والا وہ ہے کہ جب وہ کوئی مرتبہ حاصل کر لے تو اپنے عزیز واقارب پر ظلم کرے،شناسا وواقف کار لوگوں کو نہ پہچانے، شرفاء کو حقیر جانے اور صاحب ِ فضل پر تکبر کرے۔”