مِثْلِیَّت سے پاک ذات:
مِثْلِیَّت سے پاک ذات:
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے عقل والوں پر پردے ڈال دئیے کہ وہ اس کا احاطہ کر سکیں تو وہ حیران وپریشان ہیں، اور انہیں اپنی توحید کی نشانیاں دکھائیں توانہوں نے نہ مخالفت کی اور نہ ہی مثل ہونے کا دعوی کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی بزرگی وعظمت کا ذکر ان کے دلوں میں ڈالا تو وہ اس کی یاد میں مست ہو گئے اور کہنے لگے:” اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اللہ ہی پر ایمان والے بھروسہ کریں۔” اس نے اپنے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ پر فضل وکرم کرتے ہوئے انہیں بڑی بڑی نعمتیں عطا فرمائیں،اور اپنے دشمنوں کے لئے درد ناک عذاب تیار کیا۔ اور اپنا ادراک کرنے سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال دئیے لہٰذا وہ کسی کے متعلق اس کے مثل یا مشابہ ہونے کا وہم تک نہیں کرتے۔ چنانچہ،
اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی بے مثل و بے مثال شان یوں بیان فرماتاہے:
(1) سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوۡنَ ﴿18﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اسے پاکی اور برتری ہے ان کے شرک سے۔ (پ11،یونس:18)
(2) لَیۡسَ کَمِثْلِہٖ شَیۡءٌ ۚ
ترجمۂ کنز الایمان:اس جیسا کوئی نہیں۔(پ25،الشورٰی:11)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پھیلی ہوئی فضیلت سے بلند شئے کوئی نہیں ، اور اس کی راہ پر چلنے والے کو کوئی گمراہی نہیں آ سکتی۔ اسی کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:
(3) یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ؕ وَکَذٰلِکَ تُخْرَجُوۡنَ ﴿٪19﴾
ترجمۂ کنز الایمان:وہ زندہ کو نکالتا ہے مردے سے اورمردے کو نکالتا ہے زندہ سے اور زمین کو جِلاتا(یعنی زندہ کرتا)ہے اس کے مرے پیچھے اور یونہی تم نکالے جاؤگے۔ (پ21،الروم:19)
میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ایسی حمد وثناء کرتا ہوں جس کے ذریعے مقرَّبین اس کے مزید قرب کی لذَّت حاصل کرتے ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، یہ ایسی گواہی ہے جو گواہی دینے والے کو اس روز نفع بخشے گی جس دن مال نفع دے گا نہ اولاد،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرتِ سیِّدُنا محمد ِصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے اوررسول ہیں ،جو عربی نبی ہیں اور امین و مامون ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ، پر،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی آل وا صحاب علیہم الرضوان ، ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اجمعین اور پاک اولاد پردرود وسلام بھیجے جنہوں نے حق کے مطابق فیصلے کئے اور جو حق کے ساتھ عدل وانصاف کرتے ہیں ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کا ہولناک منظر بیان کر تے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
(4) وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور صور پھونکا جائے گا ،تو بے ہوش ہو جائیں گے ، جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں،مگر جسے اللہ چاہے ،پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گاجبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔ (پ24،الزمر:68)
حضرتِ سیِّدُنا اسرافیل علیہ السلام (اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے) صورپھونکيں گے، جبکہ صور سینگ نماہوگا۔ اور بعض کے نزدیک حضرتِ سیِّدُنا حسن کی قراء َت کے مطابق یہ”صورۃٌ” کی جمع ہے۔ انہوں نے ”وَنُفِخَ فِی الصُّوَرِ” واؤ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں: ‘ ‘حضرتِ سیِّدُنا اسرافیل علیہ السلام نے کبھی آنکھ نہیں جھپکائی۔” یعنی جب سے ان کے ذمہ یہ کام لگاہے، وہ ایک پلک کو دوسری پر نہیں رکھتے کہ کہیں پَلک جھپکنے سے پہلے اُنہیں (صور پھونکنے کا) حکم نہ دے دیا جائے۔ اور اس نفخہ سے مراد نفخہ اُولیٰ ہے۔ ”صَعِقَ” کا معنی ہے کہ وہ گھبراہٹ اور آواز کی شدَّت سے مر جائیں گے۔
”اِلَّامَنْ شَآءَ اللہُ” کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ جنہیں چاہے گا انہیں گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ اوریہ کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ چنانچہ، ایک قول یہ ہے کہ وہ شہداء ہیں۔ بعض کے نزدیک ان سے مراد جبرائیل ، میکائیل وعزرائیل اور اسرافیل علیہم السلام ہیں۔ اور بعض نے کہا: ” وہ عرش اٹھانے والے فرشتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ تمام فرشتے مرادہیں،جبکہ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے حور عِین مرادہیں۔پھر دوسری بار صور پھونکا جائے گا اور یہ دوبارہ اٹھائے جانے کے لئے ہو گا۔
(المستدرک ،کتاب الاھوال ، باب ینتظر صاحب الصور متی یؤمر بنفخہ ، الحدیث ۸۷۱۹، ج۵، ص۷۷۴۔ العظمۃ لابی الشیخ الاصبھانی،صفۃ اسرافیل علیہ السلام،الحدیث۳۹۴/۳۹۳ ، ص۱۴۵، بتغیرٍقلیلٍ)
حضرتِ سیِّدُناابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،حضورنبئ پاک، صاحب ِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: ”اجسام زمین سے اس طرح نکلیں گے جیسے سبزہ ،اور روحیں شہد کی مکھیوں کی طرح نکلیں گی اور ناک کے بانسوں سے جسموں میں اس طرح سرایت کر جائیں گی جیسے زہر ، زہر خوردہ کے جسم میں سرایت کر جاتا ہے اور وہ سب ان ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔”
( شعب الایمان للبیھقی،باب فی حشر الناس بعد ما یبعثون من قبورھم ،فصل فی صفۃ یوم القیامۃ ،الحدیث۳۵۳، ج۱،ص ۳0۹،بتغیرٍقلیلٍ)
اے میرے اسلامی بھائیو!غور کرو!تمہارے سب دوست، احباب اپنے حقیقی گھروں کی طرف کوچ کر گئے، عنقریب تمہیں بھی یہ سفر طے کرنااور قبر میں اترناپڑے گا،وہ سب دنیوی مال ودولت اور اپنے وطن چھوڑ کرچل بسے اور بہت جلد تمہیں بھی یہ سب کچھ چھوڑکر جانا پڑے گا، انہوں نے جدائی کا پیالہ گھونٹ گھونٹ کرکے پیا اب تمہیں بھی پینا پڑے گا، جس طرح انہیں اپنے اعمال کا سامناکرنا پڑا تمہیں بھی کرنا پڑے گا،انہیں اپنے برے اعمال پر ندامت و شرمندگی اٹھانا پڑی عنقریب تمہیں بھی اٹھانا
پڑے گی،وقت کو فضولیات میں برباد کرنے پر وہ حسرت و افسوس کی آفت میں مبتلا ہیں عنقریب تمہیں بھی حسرت کی آفت میں مبتلا ہونا پڑے گا،وہ موت کی سختیوں سے ہمکنار ہوئے اور جلد ہی تمہیں بھی ان سختیوں کا شکار ہونا پڑے گا،انہوں نے اپنی آنکھوں سے ہولناکیوں کو دیکھاعنقریب تم بھی دیکھ لو گے۔ان سے اُن کے اعمال کا حساب لیاگیا اور جلد ہی تم سے بھی لیا جائے گا، ان میں سے کوئی تمنا کر ے گا کہ کاش! مال کے بدلے عذاب سے نجات مل جائے عنقریب تم بھی اس کی تمنا کرو گے، لہٰذا جلدی کرو! حساب کتاب کے دن اورخواہشوں کی ذلت سے پہلے پہلے توبہ کرلو، ابھی جوانی کی بہار ہے، بہت جلد اسے موت کے ہاتھوں فنا ہونا ہے، عنقریب تم اچانک آنے والی موت کے سائے میں ہو گے جس کاتم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور صور پھونکا جائے گا ،تو بے ہوش ہو جائیں گے ، جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں،مگر جسے اللہ چاہے ،پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گاجبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ24،الزمر:68)
اے ابن آدم! اس وقت تیرا کیا حال ہو گاجب صور پھونکا جائے گااور قبر والے منتشر ہو جائیں گے،جو سینوں میں ہو گا ظاہر ہو جائے گا،معاملات تنگ ہو جائیں گے،چھپا ہوا سب ظاہر ہو جائے گااور ساری مخلوق قبروں سے اُٹھ کھڑی ہو گی۔
فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمۂ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔ (پ24،الزمر:68)
وہ سب سے بڑا کیساعجیب دن ہو گا جس میں زلزلے ہوں گے اورپہاڑوں کو چلایاجائے گا،یکے بعد دیگرے ہولناکیوں کا سلسلہ ہوگا، امیدیں ختم ہو جائیں گی،حیلے کم ہو جائیں گے ، بائیں جانب والے خسارے میں ہوں گے، جوں ہی صور پھونکا جائے گا سب لوگ کانپتے ہوئے اپنی قبروں سے نکلیں گے۔
فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمۂ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ24،الزمر:68)
وہ ایسا دن ہے جس میں قدم پھسل رہے ہوں گے، عقلیں کمزور ہو جائیں گی، کچھ سمجھ نہ آئے گا، طویل عرصہ کھڑا رہنا پڑے گا، گناہ ظاہر ہوجائیں گے، کسی کوبولنے کی جراء َ ت نہ ہو گی اورموت کاجام پینے کے بعد لوگ قبروں سے زندہ نکلتے ہوں گے۔
فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمۂ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ24،الزمر:68)
پس وہ قیامت کا دن ہے، حسرت و ندامت کادن ہے،زلزلوں اور جھٹکوں کا دن ہے،اس دن گنہگاراور نافرمان اپنے گناہوں اور بدکاریوں کو دیکھ لے گا اور لوگ قبروں سے اٹھ کروعدے کی جگہ پر جا رہے ہوں گے۔
فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمۂ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ24،الزمر:68)
(5) یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُ ۙ﴿9﴾
ترجمۂ کنزالایمان :جس دن چھپی باتوں کی جانچ ہوگی۔(پ30،الطارق:9)
جس دن سب راز فاش ہو جائیں گے، ظالموں کاظلم ظاہر ہوجائے گا، آنکھیں اندھی ہوجائیں گی،لوگ حیران و پریشان ہوں گے،کبیرہ گناہ کرنے والے ذلیل و رسواہوں گے،قبروں سے مومن، کافر اور نیک و بد سب اُٹھ کر میدان محشر میں لرزتے ہوئے جمع ہو جائیں گے۔ فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ ترجمۂ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ۲۴،الزمر:۶۸)
حضرتِ سیِّدُنامحمد بن سماک علیہ رحمۃاللہ الرزاق بہت زیادہ رویاکرتے تھے،جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے رونے کا سبب پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا:”قرآن پاک کی اس آیتِ مبارکہ نے مجھے رُلا دیاہے:
(6) وَ بَدَا لَہُمۡ مِّنَ اللہِ مَا لَمْ یَکُوۡنُوۡا یَحْتَسِبُوۡنَ ﴿47﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور انہیں اللہ کی طرف سے وہ بات ظاہر ہوئی جو ان کے خیال میں نہ تھی۔(پ24، الزمر:47)
(پھر فرمایا) آنکھیں رونے کے درد کا ذائقہ کیسے نہ چکھتیں جبکہ وہ نہیں جانتیں کہ کون سی چیز اس رونے کو ختم کرے گی۔”
اے میرے اسلامی بھائیو!پرہیز گار چلے گئے اور ہم رہ گئے ہیں۔انہوں نے وصال پایا جبکہ ہم نے جدائی اختیار کی۔ انہوں نے مقصود پایا جبکہ ہم نے اسے کھو دیا۔ انہوں نے شرکِ (خفی یعنی ریا کاری) سے اجتناب کیا جبکہ ہم اس میں مبتلا ہوگئے۔ آؤ! ہم بھی ان کے نقش قدم پرچلیں اوران کی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہائیں۔
(7) وَ اِنۡ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیۡءٌ وَّ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:اور اگر کوئی بوجھ والی اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو اس کے بوجھ میں سے کوئی کچھ نہ اٹھائے گااگرچہ قریب رشتہ دار ہو۔(۱) (پ۲۲،فاطر:۱۸)
حضرتِ سیِّدُنافضیل بن عیاض رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مذکورہ آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”بروزِ قیامت ماں اپنے بیٹے سے ملے گی اور کہے گی:”اے میرے بیٹے!کیا تومیرے پیٹ میں نہ رہااور میرا دودھ نہ پیا؟” و ہ کہے گا:”کیوں نہیں،اے میری ماں!” ماں بولے گی : ”آج میں گناہوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہوں،تو ان میں سے صرف ایک گناہ کا بوجھ اٹھالے۔”تو وہ کہے گا:”مجھ سے دور ہوجا، مجھے اپنی فکر پڑی ہے، میں دوسروں سے بے پرواہ ہوں۔” (تفسیر القرطبی، الفاطر، تحت الآیۃ۱۸، الجزء الرابع عشر،ج۷،ص۲۴۷)
اے میرے اسلامی بھائیو! ہمارے دل غفلت کے سبب جسموں سے نکل چکے ہیں،میں کب تک تمہیں نصیحتیں کرتا ہوں، زندوں کو مکان بنانے کی پڑی ہے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہماری لغزشوں اورگناہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟ اے میرے بھائیو! غلطی اور کوتاہی نے ہمیں قید کر دیااور موت قریب آ پہنچی۔ ہم پر افسوس!ہمیں روزِمحشر کی ہولناکیوں اور صور کے پھونکے جانے کا سامنا ہے۔ اے میرے بھائیو! آخرکب تک توبہ میں دیرکرتے رہو گے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! بڑھاپا آ رہاہے ،جوانی جا رہی ہے، تم کب اپنے مالک عَزَّوَجَلَّ سے صلح کروگے؟اور کب اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کی تیاری کرو گے؟کیا تمہیں دوستوں، عزیزوں کی موت اور اِس کے بعد پیش آنے والے معاملات سے عبرت حاصل نہیں ہوتی؟ کیا تم صور کے پھونکے جانے سے عبرت نہیں پکڑتے۔؟
روایت میں ہے کہ جب کوئی نوجوان اپنے مالک عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرتاہے تو فرشتے ایک دوسرے کوخوشخبریاں دیتے ہیں۔ دیگر فرشتے پوچھتے ہیں: کیا ہوا؟ تو ان کو کہا جاتاہے کہ ایک نوجوان نے خواب ِ غفلت سے بیدار ہو کر اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کر لی ہے ۔ پھر ایک اعلان کرنے والااعلان کرتا ہے:”اس نوجوان کی توبہ کے استقبال میں جنتوں کو سجا دو۔”
حدیث شریف میں ہے کہ جب کوئی نوجوان گناہوں کی وجہ سے روتا ہے اور اپنے مالک و محبوب ِحقیقی عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں خطاؤں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتاہے:”یااللہ عَزَّوَجَلَّ! میں نے برائی کی۔” تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے: ”میں نے پردہ پوشی کی۔”پھرعرض کرتاہے:”میں نادِم ہوں۔”جواب ملتاہے :”میں جانتاہوں۔”پھر عرض کرتاہے:”میں توبہ کرتا ہوں۔” جواب آتا ہے: ”میں قبول کرتاہوں،اے نوجوان ! جب تو توبہ کرکے توڑ ڈالے تو ہماری طرف رجوع کرنے سے حیا نہ کرنا،اور جب دوسری مرتبہ توبہ توڑ دے تو تیسری مرتبہ ہماری بارگاہ میں حاضر ہونے سے شرمندگی تجھے نہ روکے، اورجب تیسری مرتبہ توڑدے تو چوتھی مرتبہ بھی ہماری بارگاہ میں لوٹ آنا،(کیونکہ)میں ایسا جوَّاد ہوں جوبخل نہیں کرتا،میں ایسا حلیم ہوں جو جلد بازی نہیں کرتا،میں ہی نافرمان کی پردہ پوشی کرتا اور تائبین کی توبہ قبول کرتاہوں، میں خطائیں معاف کرتا، ندامت کرنے والوں پر سب سے زیادہ رحم کرتا ہوں کیونکہ میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہوں۔ کون ہے جو ہمارے دروازے پر آیا اور ہم نے اسے خالی واپس لوٹادیا؟ کون ہے جس نے ہماری جناب میں التجا کی اور ہم نے اسے دھتکار دیا؟ کون ہے جس نے ہم سے توبہ کی اور ہم نے قبول نہ کی ؟ کون ہے
جس نے ہم سے مانگا اور ہم نے عطا نہ کیا؟ کو ن ہے جس نے گناہوں سے معافی چاہی اور ہم نے اُسے دھتکار دیا؟ کیونکہ میں سب سے بڑھ کر خطاؤں کو بخشنے والا، سب سے بڑھ کر عیبوں کی پردہ پوشی کرنے والا، سب سے بڑھ کر مصیبت زدوں کی مدد کرنے والا، گریہ وزاری کرنے والے پر سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ غیبوں کی خبر رکھتاہوں۔ اے میرے بندے! میرے درپہ کھڑا ہوجامیں تیرا نام اپنے دوستوں میں لکھ دوں گا، سحری میں میرے کلام سے لطف اندوز ہو میں تجھے اپنے طلب گاروں میں شامل کردوں گا، میری بارگاہ میں حاضری سے لذت حاصل کر میں تجھے لذیذ (پاکیزہ)شراب پلاؤں گا، غیروں کو چھوڑ دے، فقر کو لازم پکڑ لے، سحری کے وقت عاجزی وانکساری کی زبان کے ساتھ مناجات کر۔”
اے میرے اسلامی بھائیو!میزان پر کھڑے ہو کر اعمال کا حساب دینا بہت دشوارہے،اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے اپنے گناہوں بھرے وجود کو لے کر کھڑا ہونا انتہائی مشکل ہے۔ پس تم کب تک کھیل کود میں وقت برباد کرتے رہوگے؟ زندگی توبہت مختصر ہے۔ ابھی توتم ان ہولناکیوں سے بے خبر ہوجن کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ جب قبر والوں کو اٹھایا جائے گا اور صور پھونکا جائے گااور جو کچھ سینوں میں پوشیدہ ہے سب ظاہر ہو جائے گاتو اس وقت تمہیں سخت ندامت و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اے میرے اسلامی بھائیو!جب دِل گلے کے پاس آجائیں گے، اور حسرت وندامت خنجر کی طرح کلیجے پھاڑ دے گی، اور نافرمانوں کی پیاس سخت گرمی کی وجہ سے جوش مارے گی۔تو اے نافرمان شخص! گناہ ترک کرکے جلدی سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوجا اورنفع کی بہاروں کوحاصل کر لے اس سے پہلے کہ وہ (بہاریں) گزر جائیں اور صور پھونک دیا جائے۔
افسوس ہے ان دلوں پر جو لوہے سے زیادہ سخت ہیں! افسوس ہے ان جانوں پر جو ہدایت کے راستے سے بھٹکی ہوئی ہیں! افسوس ہے ان آنکھوں پر جو چٹانوں کی سختی سے زیادہ جمی ہوئی ہیں (کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف سے آنسو نہیں بہاتیں)! عنقریب خواہشاتِ نفسانیہ کی پیروی کرنے والے پیپ کی شراب پئیں گے، جب ان کے برے اعمال ظاہر ہوں گے تو ان کے ہوش و حواس اڑ جائیں گے۔
فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمہ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ24،الزمر:68)
کاہلی وسستی نے کتنے نوجوانوں کوخائب وخاسر کردیا۔اور کتنے غافلوں کے دل غفلت نے بےکار کردئیے۔ اور کتنے امید باندھنے والوں کی آنکھوں پر ان کی امیدوں نے پردہ ڈال دیا۔اور کتنے خوفِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ رکھنے والوں کے دلوں کواسباب نے کمزور کر دیا ، ان کے اور ان کی خواہشات کے درمیان رکاوٹ بن گئے۔
فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمہ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ24،الزمر:68)
کیا موت کی تکالیف سن کر تمہاری آنکھیں نہیں بہتیں؟کیا موت کی وحشت سے تمہارے دل نہیں گھبراتے؟ کیا وعظ و نصیحت کی طرف تمہارے کان متوجہ ہو کر کچھ نہیں سنتے؟ کیا فنا ہونے والی شئے کی طلب سے تمہارے پیٹ سیر نہیں ہوتے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!(”اور ضرور تم سے تمہارے کام پوچھے جائیں گے۔” جیساکہ خود ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے):
(8) وَلَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا کُنۡتُمْ تَعْمَلُوۡنَ ﴿93﴾
ترجمۂ کنزالایمان :اور ضرور تم سے تمہارے کام پوچھے جائیں گے۔(پ14،النحل :93)
فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ﴿68﴾
ترجمۂ کنزالایمان:جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔(پ24،الزمر:68)
1 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”باپ یا ماں یا بھائی کوئی کِسی کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ” ماں باپ بیٹے کو لپٹیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے بیٹے! ہمارے کچھ گناہ اٹھالے ۔وہ کہے گا: میرے امکان میں نہیں، میرا اپنا بار کیا کم ہے؟۔”