islam
نام کتاب۔ سمتِ ثبات(نظمیں) شاعر۔صابر فخر الدین مبصر ۔عبد المتین جامیؔ
نام کتاب۔ سمتِ ثبات(نظمیں)
شاعر۔صابر فخر الدین مبصر ۔عبد المتین جامیؔ
زیر نظر شعری مجموعہ صابر فخر الدین کی مختصر نظموں پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں انھوں نے اپنی غزلوں کے مجموعے بھی شائع کرائے ہیں۔ مختصر نظموں کا جہاں تک تعلق ہے کئی پیرائے میں لکھی جا چکی ہیں ۔ظہیر غازی پوری نے سہہ سطری نظمیں لکھیں ۔پھر ان کے پیچھے ایک قافلہ چل پڑا ۔دو سطری نظمیں ہی نہیں بلکہ ایک سطری نظموں کا رواج بھی چل پڑا ہے۔ علیم صبا نویدی نے ترسیلے کے نام سے سہہ سطری نثری نظموں کا تجربہ کیا۔ نظموں کے نام بدل بدل کر کئی تجربے اردو میں کئے جا چکے ہیں۔ دوہا بھی دو سطری نظم ہے لیکن ایک خاص وزن میں کہا جاتا ہے۔ ہائیکو جیسی جاپانی صنف سخن کے علاوہ کئی اصناف سخن مختصر نظموں کے دائرے میں آتی ہیں۔ حتیٰ کے غزل کا ہر شعر ایک ایک نظم کے دائرے میں آسکتا ہے۔ اس لیے صابر فخر الدین صاحب کی مختصر نظمیں جو اس کتاب میں شامل ہیں انھیں کسی نئی صنف کا نام تو نہیں دیا جاسکتا البتہ ظہیر غازیپوری(مرحو م) کے بقول ان نظموں کو’’ لمحاتی نظم‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ان کے متعلق یہ بے شک کہی جا سکتی ہے کہ صابر صاحب ایک تجربہ پسند شاعر ہیں اور اپنی اجتہادی فطرت کا ثبوت بھی پیش کرتے جارہے ہیں۔
صابر صاحب کے اس تجربے کے سلسلے میں ظہیر غازی پوری رقم طراز ہیں کہ’’اردو میں مدت دراز سے لمحاتی نظمیں کہی جا رہی ہیں لہٰذا اردو شاعری میں اس کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔صابر فخر الدین کی ان مختصر نظموں کو لمحاتی نظم کے زمرے میں بلا تکلف جگہ دی جا سکتی ہے‘‘۔دیکھا جایے تو غزلوں کے اشعار بھی ان لمحاتی نظموں کے زمرے میں آتے ہیں۔ صابر فخر الدین صاحب کی ذیل کی نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد ظہیر صاحب کے خیال سے ہم بھی متفق ہو سکتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
زمیں پتھر کی ہے لیکن ؍نہیں ہوں میں بھی پتھر کا
قفس اندر قفس محجوب ہو کر بھی؍ہماری روح کو آزاد رہنا خوب آتا ہے
جب زمانہ تیرا پنا ہو گیا تھا؍ کہانی ختم سی کیوں ہو گئی تھی
اب قارئین ہی یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ درجِ بالا نظموں کو نظم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔بہر کیف’’سمتِ ثبات‘‘ کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد ہی صابر صاحب کی اس کوشش کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ صاحب رائے حضرات ہی بتا سکتے ہیں کہ اس تجربے کو قبول کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر خوش دلی سے قبول کرتے بھی ہیں تو اسے قبولِ عام کا درجہ ملتا بھی ہے یا نہیں ۔اس سلسلے میں ناچیز کی رائے یہ ہے کہ اردو شاعری میں کئے جانے والے ہر تجربے کو بخوشی قبول کیا جا سکتا ہے۔ مگر جہاں تک تجربے کی کامیابی کی بات ہے اس کا پتہ آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے ۔اس کتاب کے ناشر فیضان پبلکیشنز یادگیر ہیں
شاعر۔صابر فخر الدین مبصر ۔عبد المتین جامیؔ
زیر نظر شعری مجموعہ صابر فخر الدین کی مختصر نظموں پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں انھوں نے اپنی غزلوں کے مجموعے بھی شائع کرائے ہیں۔ مختصر نظموں کا جہاں تک تعلق ہے کئی پیرائے میں لکھی جا چکی ہیں ۔ظہیر غازی پوری نے سہہ سطری نظمیں لکھیں ۔پھر ان کے پیچھے ایک قافلہ چل پڑا ۔دو سطری نظمیں ہی نہیں بلکہ ایک سطری نظموں کا رواج بھی چل پڑا ہے۔ علیم صبا نویدی نے ترسیلے کے نام سے سہہ سطری نثری نظموں کا تجربہ کیا۔ نظموں کے نام بدل بدل کر کئی تجربے اردو میں کئے جا چکے ہیں۔ دوہا بھی دو سطری نظم ہے لیکن ایک خاص وزن میں کہا جاتا ہے۔ ہائیکو جیسی جاپانی صنف سخن کے علاوہ کئی اصناف سخن مختصر نظموں کے دائرے میں آتی ہیں۔ حتیٰ کے غزل کا ہر شعر ایک ایک نظم کے دائرے میں آسکتا ہے۔ اس لیے صابر فخر الدین صاحب کی مختصر نظمیں جو اس کتاب میں شامل ہیں انھیں کسی نئی صنف کا نام تو نہیں دیا جاسکتا البتہ ظہیر غازیپوری(مرحو م) کے بقول ان نظموں کو’’ لمحاتی نظم‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ان کے متعلق یہ بے شک کہی جا سکتی ہے کہ صابر صاحب ایک تجربہ پسند شاعر ہیں اور اپنی اجتہادی فطرت کا ثبوت بھی پیش کرتے جارہے ہیں۔
صابر صاحب کے اس تجربے کے سلسلے میں ظہیر غازی پوری رقم طراز ہیں کہ’’اردو میں مدت دراز سے لمحاتی نظمیں کہی جا رہی ہیں لہٰذا اردو شاعری میں اس کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔صابر فخر الدین کی ان مختصر نظموں کو لمحاتی نظم کے زمرے میں بلا تکلف جگہ دی جا سکتی ہے‘‘۔دیکھا جایے تو غزلوں کے اشعار بھی ان لمحاتی نظموں کے زمرے میں آتے ہیں۔ صابر فخر الدین صاحب کی ذیل کی نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد ظہیر صاحب کے خیال سے ہم بھی متفق ہو سکتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
زمیں پتھر کی ہے لیکن ؍نہیں ہوں میں بھی پتھر کا
قفس اندر قفس محجوب ہو کر بھی؍ہماری روح کو آزاد رہنا خوب آتا ہے
جب زمانہ تیرا پنا ہو گیا تھا؍ کہانی ختم سی کیوں ہو گئی تھی
اب قارئین ہی یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ درجِ بالا نظموں کو نظم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔بہر کیف’’سمتِ ثبات‘‘ کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد ہی صابر صاحب کی اس کوشش کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ صاحب رائے حضرات ہی بتا سکتے ہیں کہ اس تجربے کو قبول کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر خوش دلی سے قبول کرتے بھی ہیں تو اسے قبولِ عام کا درجہ ملتا بھی ہے یا نہیں ۔اس سلسلے میں ناچیز کی رائے یہ ہے کہ اردو شاعری میں کئے جانے والے ہر تجربے کو بخوشی قبول کیا جا سکتا ہے۔ مگر جہاں تک تجربے کی کامیابی کی بات ہے اس کا پتہ آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے ۔اس کتاب کے ناشر فیضان پبلکیشنز یادگیر ہیں