کہوں کیاحال زاہد گلشنِ طیبہ کی نزہت کا
کہوں کیاحال زاہد گلشنِ طیبہ کی نزہت کا
کہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا
تَعَالَی اللّٰہ شوکت تیرے نام پاک کی آقا
کہ اب تک عرشِ اعلیٰ کوہے سکتہ تیری ہیبت کا
وکیل اپنا کیا ہے اَحمد مختار کو میں نے
نہ کیوں کر پھر رہائی میری منشا ہو عدالت کا
بلاتے ہیں اسی کو جس کی بگڑی یہ بناتے ہیں
کمر بندھنا دیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا
کھلیں اِسلام کی آنکھیں ہوا ساراجہاں روشن
عرب کے چاندصدقے کیاہی کہنا تیری طلعت کا
نہ کر رُسوائے محشر واسطہ محبوب کا یارب
یہ مجرم دُور سے آیا ہے سن کر نام رحمت کا
مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میں
ہجوم جود نے روکا ہے بڑھنا دست حاجت کا
شب اَسری ترے جلوؤں نے کچھ ایسا سماں باندھا
کہ اب تک عرشِ اَعظم منتظر ہے تیری رخصت کا
یہاں کے ڈوبتے دَم میں ادھر جا کر اُبھرتے ہیں
کنارہ ایک ہے بحرِ ندامت بحرِ رحمت کا
غنی ہے دل بھرا ہے نعمت کونین سے دامن
گدا ہوں میں فقیر آستانِ خود بدولت کا
طوافِ روضۂ مولیٰ پہ نا واقف بگڑتے ہیں
عقیدہ اور ہی کچھ ہے اَدَب دانِ محبت کا
خزانِ غم سے رکھنا دور مجھ کواس کے صدقے میں
جو گل اے باغباں ہے عطر تیرے باغ صنعت کا
الٰہی بعد مردن پردہ ہائے حائل اُٹھ جائیں
اُجالا میرے مرقد میں ہو اُن کی شمع تربت کا
سنا ہے روزِ محشرآپ ہی کا مونہہ تکیں گے سب
یہاں پورا ہوا مطلب دلِ مشتاق رُویت کا
وجودِ پاک باعث خلقت مخلوق کا ٹھہرا
تمہاری شانِ وَحدت سے ہوا اِظہار کثرت کا
ہمیں بھی یاد رکھنا ساکنانِ کوچۂ جاناں
سلامِ شوق پہنچے بیکسانِ دَشت غربت کا
حسنؔ سرکارِ طیبہ کا عجب دَربارِ عالی ہے
درِ دولت پہ اِک میلا لگا ہے اَہل حاجت کا