Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

ہندو شعراءکا حمدیہ کلام ٭غلام ربانی فداؔ

 ہندو شعراءکا حمدیہ کلام
٭غلام ربانی فداؔ
شعراءعوام الناس سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ۔ان کے جذبات فطری طورپر نازک ،لطیف اورسریع الاشتعال ہوتے ہیں۔اس لئے خدا تعالیٰ کی حکمت وکاری گری اس کے گونا گوں جلوؤں اور اس کی بخشش و فیض عام سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ،ان کا یہی احساس و تاثر شعر کی شکل اوڑھ لیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان کی شاعری میں خدا تعالیٰ کی حمد و معرفت کے زمرے اوردعا و مناجات کے نذرانے ملتے ہیں ۔اردو شاعری کا خزانہ بھی اس سے اس حد تک مملو ہے کہ جو شعراءاپنی رندی و ہوسناکی کے لئے بدنام ہیں ،ان کا شعر ی دفاتر بھی اس صنف شاعری سے خالی نہیں ۔اکثر قدیم شعراءکے دواوین و کلیات کا آغاز حمد و نعت اور منقبت کے اظہار سے ہوا ہے ۔حمد و مناجات اور نعت و منقبت کو مذہبی تقدس کا درجہ حاصل ہے اور یہ سب اصناف شاعری عربی و فارسی کے اثر و وسیلہ سے اردو میں داخل ہوتی ہیں۔لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی طرح ہندو شعراءنے بھی ان میں اپنی طبیعت کے جوہر دکھائے ہیں ۔یہ ایک محقیقین کے لئے دلچسپ عنوان ہے، اگر صرف حمد کے تعلق سے ان کے کلام کو موضوع بنایا جائے تو ایک پوری مکمل کتاب تیار ہو سکتی ہے ،اس لئے ہم اپنے مضمون میں چند ہندو شعراءقدیم کی حمدیہ شاعری تک بحث و گفتگو محدود رکھیں گے ۔
پنڈت دیا شنکر نسیم:۔یہ کشمیری برہمن تھے ۔کشمیر ہی ان کے بزرگوںکا وطن ہے ۔لیکن خود نسیم۱۸۱۱ءمیں لکھنومیں پیدا ہوئے اور عین عالم شباب میں ۱۸۴۳ءیہیں پر وفات پائی ۔نسیم کو غزل گوئی سے بھی مناسبت تھی اور ایک مختصر دیوان ِغزلیات بطور یادگار چھوڑ ا ہے ۔لیکن نسیم کو شہرت اور بقائے دوام عطا کرنے والی ان کی مثنوی”گلزار نسیم “ ہے ۔جو اردو کی ان چند مثنویوںمیں سے ہے جن کو قبول عام کی سند حاصل ہے ۔اردو کی یہ مایہ ناز مثنوی ”سحر البیان “ کے بعد بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا نام بھی لیا جاتا ہے ۔یہ مثنوی طبع زاد نہیں ہے بلکہ نسیم نے ایک پرانی داستان کو اردو کا جامہ پہنا کر اپنے کمال فن سے اسے زندہ جاوید بنا دیا ہے ۔واقعہ نگاری، مصوری اور جذیات نگاری سے قطع نظر مثنوی کا خاص جوہر ایجاز و اختصار ہے ۔رعایت لفظی اور ضائع بدائع کے استعمال کے باوجود انداز بیان کے سلیقے اور بندش کی چستی نے اسے معراج ِکمال پر پہنچا دیا ہے ۔اور مثنوی کے بہت سے شعروں کو ضرب المثل کا درجہ د ے دیا ہے ۔مثنوی میں گل بکاؤلی کا قصہ نظم ہوا ہے ،اور یہ قصہ گل بکاؤلی کے نام سے بھی مشہور ہے ۔اس کا آغاز جن چار شعروں سے ہوا ہے ان میں سے دو ملا حظہ ہوں۔
ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری ثمرہ ہے قلم کا حمد باری
کرتا ہے یہ دوزباں سے یکسر حمد، حق، و مدحت پیمبر
اس کے بعد اور اصل قصہ شروع ہونے سے پہلے یہ عنوان درج ہے ۔
”خواستگاری جناب یاری سے مثنوی گلزار نسیم کی ترتیب کے واسطے“
اس عنوان کے تحت کئی اشعار دئے گئے ہیں ۔پہلا شعر پیش خدمت ہے
یارب میرے خامے کو زباں دے منقار ہزار داستاں دے
منشی جگن ناتھ خوشتر:۔ان کی ذات کائستھ سریواستو تھا ۔اصل وطن قصبہ بڈسہ ضلع اناؤ تھا ۔تلاش معاش میں ان کے بزرگ لکھنو آئے اور سرکار شاہی میں ملازم ہوئے ۔خوشتر۱۸۰۹ءمیں پیدا ہوئے اور ۱۸۶۴ءمیں انتقال کیا ۔وہ اچھے خوش نویس اور کامیاب شاعر تھے ۔شاعری میں ان کا میلان طبع فدہیات کی طرف تھا ۔انہوں نے سری ور بھاگوت منظوم مثنوی ”چند گپت کتھاست نرائن “منظوم اور ”سراپا چرتر‘وغیرہ کتابیں تصنیف کیں جو مطبع نول کشور سے طبع ہو چکی ہے ۔
خوشتر کی معرکۃالآراءتصنیف ”رامائن خوشتر“ ہے انہوں نے ۱۸۵۱ءمیں تلسی کی رامائن کا ترجمہ حرف بہ حرف نہایت سلیس اور دل کش انداز میں کیا ۔جو بہت مقبول ہو ااس کتاب کو ان کا بڑا کارنامہ اور اردو ادب میں ایک بیش بہا اضافہ خیال کیا جاتا ہے ۔پر شکوہ الفاظ و تراکیب دل آویز و نادر تشبیہات و استعارات ،جیسی بندش ،صفائی کلام ،اور اعلی تخیل و بلند مضامین کے لحاظ سے بھی یہ ایک مایہ ناز تصنیف ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو ادب کا خزانہ ہندوؤں کے مذہبی عناصر سے بھی مملو ہے ۔رامائن سے ان کے مناجات کے چند اشعار ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
مناسب ہے بشر کو وقت حاجات کرے درگاہ باری میں مناجات
وہی حاجت روائے دو جہاں ہے کرم فرمائے عالم بے گماں ہے
وہی آمرزگار ہر خطا ہے وہی روزی وہ شاہ و گدا ہے
اسی کی ذات ہے غفار و ستار اسی کا نام ہے قہار و جبار
وہی دوزخ وہی دیتا ہے جنت وہی ذلت وہی دیتا ہے عزت
ایک اور دعائیہ شعر اس طرح بھی آیا ہے ۔
خدایا نامہ و نام آواری دے قلم کو جلوۂ بال و پری دے
منشی شیو پرشاد وہبی:۔لکھنو کے باشندے اور ذات کا ئستھ سکسینہ سے متعلق تھے شاعری میں آفتاب الدولہ خواجہ ارشد علی خاں بہادر قلق کے شاگرد تھے۔منشی نول کشور کے مطیع میں ”اودھ اخبار“ کے منیجر تھے۔منشی صاحب دہبی کو بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔دہبیکی زندگی میں ان کا کلیات موسوم بہ ” مرقع ارژنگ“۱۸۸۰ءمیں طبع ہوا جو غزلوں مخمس،تاریخوں ،قصائد،سہرے اور رباعیات وغیرہ پر مشتمل ہے ۔دستور زمانہ کے مطابق دہبی کی شاعری میں عاشقانہ رنگ غالب ہے ۔زبان شستہ اور بند پختہ ہیں ۔سادگی و صفائی کلام کی شیرینی و شگفتگی اور محاوروں کی برجستگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ،کلیات کے ابتداءمیں ایک نظم ” مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات جل جلالہ“پرزور اور دل آویز ہے ۔یہ محاوروں کے اور الفاظ کی بندش ،مضامین کی خوبی اور زبان کی فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے اچھی ہے ہم اس کے دو بندپیش کر رہے ہیں
تو قادر و غیور غنی و کریم ہے تو مالک وسمیع،بصیر و علیم ہے
تو وارث و حلیم ،غفور رحیم ہے تو حافظ و حفیظ ،عزیز وحکیم ہے
واحد ہے تو قدیر ہے تو کبیر ہے تو
چاہ جو تو گداکو بھی پادشاہ کردے ذرے کو اوج نیر اعظم عطا کرے
در کوخذف،خذف کو در بے بہا کرے قطرے کو دم میں قلزم بے انتہا کرے

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!