islam
کبيرہ نمبر133: سوال ميں اصرار کرنا
یعنی سوال ميں اتنا اصرار کرنا جو مسؤل یعنی جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو سخت تکلیف پہنچائے۔
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہےکہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل سوال ميں اصرار کرنے والے شخص کو ناپسند کرتا ہے۔”
(کشف الخفاء ومزیل اللباس،حرف الھمزۃ مع النون،الحدیث: ۷۴۳،ج۱،ص۲۱۸)
(2)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحبِ جُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بندہ اس وقت تک مؤمن نہيں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے پڑوسی کو اپنی شرارتوں سے محفوظ نہ رکھے۔جو اللہ عزوجل اور آخرت کے دن پر ايمان رکھتا ہے اسے چاہےکہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو اللہ عزوجل اوریوم ِآخرت پر ايمان رکھتا ہے اسے چاہےکہ اچھی بات کہے يا خاموش رہے، اللہ عزوجل بردبار، پاکدامن اور غنی سے محبت فرماتا ہے اور بداخلاق، فاجر اور اصرار کرنے والے سائل کو پسند نہیں کرتا۔”
(مجمع الزوائد،کتاب الادب، باب فی الشیخ المجھول۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۱۳۰۲۷،ج۸،ص۱۴۵)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”کوئی شخص ميرے پاس حاضر ہو کر سوال کرتا ہے تو ميں اسےکچھ عطا فرما تا ہوں وہ اسے لےکر چلا جاتا ہے حالانکہ وہ اپنی جھولی ميں آگ ہی لےکر جاتا ہے۔”
(الترغیب والترہیب ، کتاب الصدقات، باب الترہیب من اخذمادفع۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۱۲۵۱،ج۱،ص۴۰۱)
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سونا تقسيم فرما رہے تھےکہ ايک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مجھے بھی عطا فرمائیں۔”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے بھی عطا فرما ديا، اس نے پھر عرض کی،”عطا ميں اضافہ فرمائیں۔” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے 3مرتبہ مزيد عطا فرما يا، پھر وہ شخص واپس چلا گيا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”کوئی شخص ميرے پاس حاضر ہو کر سوال کرتا ہے تو ميں اسے عطا فرماتا ہوں، وہ پھر مجھ سے سوال کرتا ہے تو ميں اسے 3مرتبہ مزيد عطا فرماتا ہوں پھر وہ پلٹ کر چلا جاتا ہے تو جب وہ اپنے اہل خانہ کی طر ف لوٹتا ہے تو اپنی جھولی ميں آگ بھر کر لوٹتا ہے۔”
(صحیح ابن حبان،کتاب الزکاۃ،باب الوعیدلمانع الزکاۃ،الحدیث:۳۲۵۴،ج۵،ص۱۱۰)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(5)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:”ميں نے سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ عالیشان ميں حاضر ہو کر عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميں نے فلاں کو شکر ادا کرتے ديکھا وہ کہہ رہا تھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے2دينار عطافرمائے ہيں۔” توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”مگر ميں نے فلاں کو 10سے 100کے درمیان عطا فرمائے اس نے نہ شکر ادا کيا نہ ہی يہ بات کسی سےکہی، تم ميں سےکوئی شخص ميرے پاس اپنی حاجت بغل ميں دبا کر نکلتا ہے حالانکہ وہ آگ ہوتی ہے۔” ميں نے عرض کی ، ”يارسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم انہيں کيوں عطا فرماتے ہيں؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”وہ مجھ ہی سے مانگتے ہيں اور اللہ عزوجل مجھ ميں بخل کو ناپسند فرماتا ہے۔”
(صحیح ابن حبان، کتاب الزکاۃ، باب المسألۃ والاخذ وما یتعلق بہ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیثـ: ۳۴۰۵،ج۵،ص۱۷۴،بتغیرٍ قلیلٍ)
(6)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”گڑ گڑاکر سوال نہ کياکرو کيونکہ جو شخص اس طرح ہم سےکوئی چيز لينے ميں کامياب ہو جاتا ہے اس کے لئے اس چيز ميں کوئی برکت نہيں ہوتی۔”
(مسند ابی یعلیٰ الموصلی، مسند عبداللہ بن عمر، الحدیث: ۵۶۰۲،ج۵،ص۱۱۲)
(7)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”گڑ گڑا کر سوال نہ کيا کرو،خداکی قسم!تم ميں سےکوئی شخص مجھ سےکچھ مانگتا ہے اورلينے ميں کامياب ہو جاتا ہے حالانکہ میں اسے ناپسندکررہا ہوتاہوں تو اس ميں کيسے برکت ہوگی ۔”
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ ،باب النھی عن المسألۃ ، الحدیث: ۲۳۹۰،ص۸۴۱)
تنبیہ:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ميں نے مذکورہ قيد کے ساتھ سوال ميں اصرار کو کبيرہ گناہ ذکر کيا ہے يہ بات بالکل ظاہر ہے اور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا کلام اس کا انکار نہيں کرتا اگرچہ انہوں نے اس کےکبيرہ گناہ ہونےکی تصريح بھی نہيں کی اور پہلی دواحادیثِ مبارکہ کا مضمون بھی ہمارے مؤقف کی تائيد کرتا ہےکيونکہ اس پر مرتب ہونے والی ناپسندیدگی اگرچہ وہ غير کے ساتھ ہی ہو کبيرہ گناہ کی علامت يعنی لعنت کے قريب ہے، نيز تيسری اور چوتھی حدیثِ پاک ميں تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا وصول شدہ چيز کو آگ قرار دينابھی ايک سخت وعيد ہے،
البتہ اگرسائل مجبور ہواورمسؤل(یعنی جس سے سوال کيا جائے وہ) ظلم کی بناء پر وہ چيز روک رہا ہو تو ايسی صورت ميں ظاہر ہےکہ اس کا اصرار حرام نہيں، نيز يہ بات بھی ظاہر ہےکہ اصرار کا کبيرہ گناہ ہونا 3مرتبہ تکرار سے مقيد نہيں بلکہ اسے عرفاً ايذاء سے مقيد کرنا چاہےکيونکہ ايسی حالت مسؤل کو غضب کی اِنتہاء پر اُبھارتی ہے اور اِعتدال کی راہ سے نکال کر بدترين گالی گلوچ ميں ڈال ديتی ہے اور يہ ايک سخت اذيت اور بری عادت ہے اس قسم کا اصرار متعدد گناہوں کا سبب بنتا ہے لہٰذا واضح ہوا کہ ہمارے ذکر کردہ بيان کے مطابق اس صورت ميں کبيرہ گناہ ہے۔