رزق کے خزانوں کا مالک
فضل بن ربیع کا بیان ہے :”میں ایک مرتبہ سفرحج میں خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجیدکے ساتھ تھا۔ واپسی پرجب ہمارا گزر ”کوفہ” سے ہوا تودیکھا کہ حضرت سیدنابہلول دانا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک جگہ کھڑے ہیں اوربہت بلندآواز سے چیخ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا:” خاموش ہو جائیے۔” خلیفۃ المسلمین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لارہے ہیں۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔ پھرجب خلیفہ ہارو ن الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجیدکی سواری قریب آئی توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے زورسے کہا: ”اے امیرالمؤمنین(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! ذرا میری بات سنئے۔” خلیفہ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آوازسنی تو رک گئے۔
حضرت سیدنابہلول دانا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اے امیرالمؤمنین (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)!مجھے” ایمن بن نایل”رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیث سنائی کہ حضرت سیدنا قدامہ بن عبداللہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”میں نے رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکو”وادیئ منیٰ”میں دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ایک سادے سے کجاوے میں تشریف فرماتھے اور وہاں نہ مارنا تھا، نہ اِدھر اُدھر ہٹانا تھا اورنہ ہی یہ کہ ایک طرف ہو جاؤ ۔”
(جامع الترمذی، ابواب الحج، باب ماجاء فی کراھیۃ طرد الناس…الخ، الحدیث:۹۰۳،ص۱۷۳۷)
؎ تیری سادگی پہ لاکھوں تیری عاجزی پہ لاکھوں ہوں سلام عاجزانہ مدنی مدینے والے ا!
فضل بن ربیع کا بیان ہے :میں نے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا:” حضور! یہ بہلول دیوانہ ہے۔”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :”میں انہیں جانتا ہوں، پھرکہا :”اے بہلول(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ! مجھے کچھ اور نصیحت کرو۔”چنانچہ انہوں نے یہ دو عربی اشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے :
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔(بالفر ض ) اگرتجھے ساری دنیا کی حکومت مل جائے اور تمام لو گ تیرے مطیع وفرمانبردار بن جائیں ،
(۲)۔۔۔۔۔۔پھر بھی کیا تیرا آخری ٹھکانا تنگ وتا ریک قبر نہیں؟(یعنی تیرے مرنے کے بعد) لوگ باری باری تجھ پر مٹی ڈالیں گے ۔
یہ سن کر خلیفہ ہارو ن الرشید علیہ رحمۃاللہ المجیدنے کہا:”اے بہلول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حق بات کو پہچا ن لیا،مجھے کچھ اور نصیحت فرما یئے۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!اللہ عزوجل نے جس کو حسن وجمال اور مال دیا، پھر اس نے اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھا اور اپنے مال کو اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کیا تو اس کا نام نیک لوگو ں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔”
فضل بن ربیع کابیان ہے :یہ گفتگوسن کرخلیفہ ہارون الرشیدعلیہ رحمۃاللہ المجید سمجھے کہ شاید یہ کچھ مال وغیرہ طلب کر رہے ہيں لہٰذاان سے کہنے لگے :” اے بہلول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! اگر آپ پر کسی کا قرض وغیرہ ہو تو وہ میں ادا کر دوں گا ۔”تو انہوں نے فرمایا: ” اے امیر المؤمنین!رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! ایسا ہرگزنہ کر۔ کیا تو قر ض کو قر ض کے بد لے ادا کرنا چاہتا ہے ؟ جا اور جاکر حق داروں کو ان کا حق ادا کر۔ اورپہلے اپنے نفس کا قرض اتار ۔بے شک تیرے پاس ایک ہی زندگی ہے۔جب تو مر جائے گاتوپھردوبارہ دنیامیں نہ بھیجاجائے گا۔”پھرامیرالمؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا: ” اے بہلول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے کچھ وظیفہ مقرر کرنا چاہتا ہوں۔”تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اے امیر المؤمنین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! ایسا ہرگز نہ کر ۔ مجھے میرا اجر و ہی پروردگار عز وجل دے گا جو تجھے نواز تا ہے ، ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا کہ میرا پروردگار عزوجل تجھے تو رزق دے ،اور مجھے میرے رزق سے محروم رکھے۔” اتنا کہنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ اشعار پڑھتے ہوئے واپس پلٹ گئے:
؎ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ وَمَااَرْجُوْ سِوَی اللہِ
وَمَا الرِّزْقُ مِنَ النَّاسِ بَلِ الرِّزْقُ عَلَی اللہِ
ترجمہ : میں نے اللہ عزوجل پربھروسہ کیا اور میں اس کے سوا کسی او ر سے امید نہیں رکھتا لوگوں کے پاس رزق نہیں بلکہ رزق کے خزانے تو اللہ عزوجل ہی کے پاس ہیں۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))