Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبيرہ نمبر134: بلا عذر کسی کی حاجت برآری نہ کرنا

یعنی انسان کا اپنے قريبی عزيز يا غلام سےکسی عذر کے بغير قدرت کے باوجود
ايسی چيز روک ليناجسے وہ سخت مجبوری کی بناء پر مانگ رہا ہو۔
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا جرير بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہےکہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”جو شخص اپنےکسی قریبی رشتہ دار کے پاس آکر اس کی حاجت سے زائد وہ شئے مانگے جو اسے اللہ عزوجل نے عطا فرمائی ہے لیکن وہ اس پر بخل کرے تو اللہ عزوجل جہنم سے ايک اژدھا نکالے گا جس کا نام شجاع ہو گا وہ منہ سے زبان نکالے ہو گا پھر وہ اس شخص کے گلےکا طوق بن جائے گا۔”   (المعجم الاوسط، الحدیث: ۵۵۹۳،ج۴،ص۱۶۷)
 (2)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بيکسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اس ذاتِ پاک کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمايا ہے! اللہ عزوجل قيامت کے دن اس شخص کو عذاب نہ دے گا جس نے يتيم پر رحم کيا، اس سے گفتگو ميں نرمی کی اور اس کی يتيمی اور کمزوری پر ترس کھايا اور اللہ عزوجل کے عطا کردہ مال سے اپنے پڑوسی پر فخر نہ کيا، اے امتِ محمد! اس ذات پاک کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمايا ہے! اللہ عزوجل اس شخص کا صدقہ قبول نہيں فرماتا جس کے رشتہ دار اس کے حسنِ سلوک کے محتاج ہوں اور وہ صدقہ کو دوسرے لوگوں کی طرف پھير دے۔اس ذاتِ پاک کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمايا ہے! اللہ عزوجل قيامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔”
 (المعجم الاوسط، الحدیث: ۸۸۲۸،ج۶،ص۲۹۶)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (3)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنابہزبن حکيم علیہ رحمۃ اللہ الکريم اپنے دادا سے روايت کرتے ہيں :ميں نے عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميں کس کے ساتھ بھلائی کروں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اپنی ماں کے ساتھ، پھراپنی ماں ، پھر اپنے باپ ، پھر اپنے قريبی رشتہ داروں اور پھر ديگر رشتہ داروں کے ساتھ۔”
 (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی برّالوالدین، الحدیث: ۵۱۳۹،ص۱۵۹۹)
 (4)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”کوئی آدمی اپنے آقا سے اس کے پاس موجود ضرورت سے زائد چيز مانگے اور وہ اس سے وہ چيز روک لے تو ضرورت سے زائد وہ چيز قيامت کے دن ”اَلشُّجَاعُ الْاَقْرَع”نامی اژدھےکی صورت ميں اسے بلائے گی۔”
 (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی برّالوالدین، الحدیث: ۵۱۳۹،ص۱۵۹۹)
    امام ابو دا ؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں :”اَقْرَع وہ سانپ ہے جس کے سر کے بال زہر کی وجہ سے جھڑ جائيں۔”
(5)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص کے پاس اس کا چچا زاد بھائی آ کر اس کے زائد مال ميں سے سوال کرے تووہ انکار کردے تواللہ عزوجل قيامت کے دن اس سے اپنافضل روک لے گا۔”
    (المعجم الاوسط، الحدیث: ۱۱۹۵،ج۱،ص۳۳۰)

تنبیہ:

    عنوان ميں مذکور گناہ کو چند شرائط کے ساتھ کبيرہ گناہ قرار دينا بالکل واضح ہے اور اس سخت وعيد کو يہ احادیثِ مبارکہ بھی شامل ہيں ليکن کسی کو ان کے ظاہری معنی کے اطلاق کا قول کرتے ہوئے نہيں ديکھا گيا کيونکہ اس ميں اِتنا حرج اور مشقت ہے جس کی طاقت نہيں رکھی جاسکتی، بلکہ بسا اوقات اَجنبی کی نیکو کاری کی وجہ سے اس پر صدقہ کرنا قريبی رشتہ دار پر اس کے فسق کی وجہ سے صدقہ کرنے سے افضل ہوتاہے، اس ميں اس بات کا ثبوت ہوتا ہےکہ وہ اسے اطاعت ميں خرچ کریگا جبکہ فاسق رشتہ دار اسے نافرمانی ميں خرچ کریگا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سوال:اگر صرف مجبور سے روکنا فرض کر ليا جائے تو اس صورت ميں غلام، قريبی رشتہ داروں اور ديگر لوگوں سے روکنےکے کبيرہ گناہ ہونے ميں کوئی فرق نہ ہو گا جيسا کہ ظاہر ہے؟
جواب:بات اگرچہ يہی ہے مگر اس ميں فرق کی وجہ گذشتہ صفحات ميں بيان شدہ اس بات سے معلوم ہو چکی ہے کہ بعض کبيرہ گناہ ديگر بعض سے زيادہ قبيح ہوتے ہيں، لہٰذاصرف مجبور سے روکنے ميں اگرچہ اس کا کبيرہ گناہ ہونا ظاہر ہے مگر غلام اور ايسے قريبی رشتہ داروں، جن کا نفقہ اس پر لازم ہے، سے روکنا مطلق رشتہ داروں سے روکنے سے زيادہ سخت اور قبيح ہے اور اس کی چند وجوہات ہيں: 
(۱)۔۔۔۔۔۔اس پر نفقہ کا واجب ہونا (۲)۔۔۔۔۔۔تعلق کی زيادتی (۳)۔۔۔۔۔۔آپس کی موالات اور قرابت توڑنا(۴)۔۔۔۔۔۔انہيں ہلاکت ميں ڈالنے کی کوشش وغيرہ جبکہ اجنبی ميں صرف يہی ايک آخری وجہ پائی جاتی ہے ــــــــــــــــــــــــ پس ان کو اس کے ساتھ مختص کرنا جائز ہے يہ خاص طور پر ذکر کرنے کی حکمت ہے جو کہ بڑی واضح اور ظاہر ہے اور (۵)۔۔۔۔۔۔اسی طرح ايک وجہ يہ بھی ہے کہ اس ميں والدين کے حقوق کی رعايت کی تاکيد اور پھر بقيہ رشتہ داروں کے حقوق کی رعايت اور اس بات پر تنبيہ ہے کہ والدين سے رشتہ توڑنا ديگر اَقرباء سے تعلق توڑنے کی طرح نہيں۔
(6)۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے اللہ عزوجل نے رشتہ داری کو عرش کے پائے سے معلق کر ديا ہے وہ کہتی ہے :”اے اللہ عزوجل ! جو مجھے جوڑے تو اسے جوڑ اور جو مجھے توڑے تو اسے توڑ دے۔”تو اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :”مجھے اپنی عزت کی قسم! جو تجھے جوڑے گا ميں اسے ضرور جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا ميں اسے ضرور توڑ دوں گا۔”

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!