islam
کبيرہ نمبر154: مد ينہ شریف والوں کو ڈرانا کبيرہ نمبر155: مد ينے والوں کے سا تھ برائی کا ارادہ کرنا کبيرہ نمبر156: مد ينے ميں کوئی بد عتِ سیّئہ ا يجاد کرنا کبيرہ نمبر157: مد ينے ميں بد عتی کو پناہ دينا کبيرہ نمبر158: مد ينہ طیِّبہ کے درخت کاٹنا کبيرہ نمبر159: مد ينہ منوَّرہ کی گھاس کاٹنا
کبيرہ نمبر154: مد ينہ شریف والوں کو ڈرانا
کبيرہ نمبر155: مد ينے والوں کے سا تھ برائی کا ارادہ کرنا
کبيرہ نمبر156: مد ينے ميں کوئی بد عتِ سیّئہ ا يجاد کرنا
کبيرہ نمبر157: مد ينے ميں بد عتی کو پناہ دينا
کبيرہ نمبر158: مد ينہ طیِّبہ کے درخت کاٹنا
کبيرہ نمبر159: مد ينہ منوَّرہ کی گھاس کاٹنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدناسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميں نے مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق وامین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:”مدينہ والوں کے ساتھ جو بھی چالبازی کریگاوہ ایسے پگھل جائے گا جيسے نمک پانی ميں گھل جاتا ہے۔”
( صحیح البخاری ،کتاب فضائل المدینہ ،باب اثم من کاد اھل المدینۃ ، الحدیث: ۱۸۷۷ ، ص ۱۴۷ )
(2)۔۔۔۔۔۔جبکہ مسلم شریف کی روايت ميں يہ اضافہ ہے:”اور جو شخص مدينہ والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ عزوجل اسے آگ میں اس طرح پگھلا دئے گا جيسے سيسہ پگھلتايا نمک پانی ميں گھل جاتا ہے۔”
(صحیح مسلم ،کتاب الحج ، باب فضل المدینۃ ودُعاء النبی فیھا بالبرکۃ ، الحدیث: ۳۳۱۹ ، ص ۹۰۵)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔رحمتِ دوعالم،نورِمجسَّم،شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نے مدينہ والوں کو خوف زدہ کيا بلا شبہ اس نے اسے خوف زدہ کیاجو ميرے پہلوؤں کے درميان ہے۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند جابربن عبداللہ ،الحدیث: ۱۴۸۲۴ ، ج ۵ ، ص ۱۳۱)
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیثِ پاک کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمايا:”جس نے اہلِ مدينہ کو خوف زدہ کيا اس نے نبی کریم ،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو خوف زدہ کيا۔” ( المرجع السابق،الحدیث:۱۵۲۲۷)
ظاہر ہے کہ يہ مقابلہ کے مجاز ميں سے ہے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو خوف زدہ کرنے سے مراد خوف زدہ کرنے والے اور اس کے ساتھ سرکارِمدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے تعلق کے ٹوٹ جانے سے کنايہ (یعنی اشارہ)ہے کيونکہ خوف زدہ کرنے سے مراد قطع رحمی، دشمنی، درد ناک اوررسوا کن عذاب، اور خوف ميں سے جو چيزيں اس پر مترتب ہوتی ہيں، کا متحقق ہوناہے۔
(5)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اے اللہ عزوجل !جو اہلِ مدينہ پر ظلم کرے يا انہيں خوف ميں مبتلا کرے تو اسے خوف ميں مبتلا فرما اور اس پر اللہ عزوجل،اس کے ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگانہ نفل(یعنی توبہ،قول اورعمل مقبول ہوگانہ فديہ وغيرہ)۔” ( المعجم الاوسط، الحدیث: ۳۵۸۹ ،ج ۲ ، ص ۳۷۹)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(6)۔۔۔۔۔۔سرکارِ مدينہ، راحتِ قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نے مدينہ منورہ ميں کوئی بدعت ايجاد کی يا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللہ عزوجل، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ عزوجل قيامت کے دن اس کا کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ نفل۔”
( صحیح مسلم ،کتاب الحج ،با ب فضل المدینہ ودُعاء النبی ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۳۳۲۳،ص۹۰۵)
ابن قيم ۱؎نے تصريح کی ہے کہ”حرمِ مدينہ کو حلال جانناکبيرہ گناہ ہے۔” جبکہ دیگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرماياکہ”مدينہ منورہ کے حرم کو حلال ٹھہرانا ائمہ ثلاثہ کے نزديک کبيرہ گناہ ہے جبکہ سیدنا امام اعظم ابوحنيفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزديک مدينہ کو حلال ٹھہرانا کبيرہ گناہ نہيں۔”
(7)۔۔۔۔۔۔ائمہ ثلاثہ کی دليل مسلم شريف کی يہ حدیثِ پاک ہے کہ حضرت سيدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کيا گيا:”کيا رسول
اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مدينہ منورہ کو حرم بنايا ہے؟” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا:”کيوں نہيں،وہ حرم ہے اس لئے اس کی سبز گھاس نہ کاٹی جائے جو ايسا کریگا اس پر اللہ عزوجل، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔”
(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فضل المدینہ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۳۲۴،ص۹۰۵،”ان انساً قیل لہ”بدلہ”سالت انسا”)
تنبیہ:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بیان کردہ چھ گناہوں کو ان احادیثِ مبارکہ ميں وارد تصريح کی بناء پر کبيرہ گناہ قرار ديا گيا ہے مگر ميں نے کسی کو ان ميں سے پہلے دوگناہوں کو بالکل ظاہر ہونے کے باوجود کبيرہ گناہ قرار ديتے ہوئے نہيں ديکھا، پھر ميں نے متاخرين علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے ایک کو اس کی تصريح کرتے ہوئے ديکھا مگر انہوں نے اس کی تعبير یوں کی:”حرم مدينہ کو حلال ٹھہرانا اور اس ميں بدعت ايجاد کرنا۔” حالانکہ اس کا ظاہری مفہوم وہی ہے جو ہم اوپر بيان کر چکے اورجسے آپ ان صحيح احادیثِ مبارکہ کے ضمن ميں جان چکے ہيں۔
سوال:پہلے دو گناہ اہل مدينہ کے ساتھ خاص نہيں بلکہ دیگر لوگوں کے حق ميں بھی کبيرہ ہونے چاہيں جيسا کہ ایذاء اور ظلم کے بيان ميں علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا کلام اس پر دلالت کرتا ہے؟
جواب: مدينہ والوں کے ساتھ کسی قسم کی برائی کے ارادے يا انہيں کسی طريقے سے بھی خوف ميں مبتلا کرنے کا حدیثِ پاک ميں خاص طور پر ذکر ہونے کی وجہ سے اسے کبيرہ گناہ قرار دينا متعين ہے جبکہ دیگر لوگوں کے حق ميں ايسا نہيں۔
۱ ؎:”ابن قیم ابن تیمیہ کا شاگر د خاص تھاان دونوں کے بارے میں امام حافظ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب فتاویٰ حدیثیہ میں فرماتے ہیں: ”ابن تیمیہ اور اس کے شاگر دا بن قیم جوزیہ وغیرہ کی کتابوں میں جوکچھ خرافات ہیں ان سے خودکوبچا کررکھناکیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیااور اللہ عزوجل نے جان کر ان کو گمراہیت میں چھوڑ دیا اور ان کے کانوں اور دل پرمُہر کردی اور ان کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیاتو اللہ عزوجل کے سواکون ہے جوان کو ہدایت دے اور(افسوس)کیسے ان بے دینوں نے اللہ عزوجل کی حدود سے تجاوز کیا اوربدعتوں میں اضافہ کیا اور شریعت و حقیقت کی دیوار میں سوراخ کردیا۔ اوریہ سمجھ بیٹھے کہ ہم اپنے رب(عزوجل) کی طرف سے ہدایت پر ہیں جبکہ وہ ایسے نہیں ہیں بلکہ وہ توشدید گمراہی وگھٹیاعادات سے متصف ہیں اورانتہائی سخت سزاوخسارے کے مستحق ہیں اورانہوں نے جھوٹ و بہتان کی اِنتہاکردی ، اللہ عزوجل ان کے پیروکاروں کوذلیل ورسواکرے اور ان جیسوں کے وجودسے زمین کوپاک کرے ۔”(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) (فتاویٰ حدیثیہ،ص ا۲۷)