islam
ایک مقولہ:
مصيبت زدہ سے کہا جاتا ہے کہ دو عظيم مصيبتوں يعنی بچے کی موت اور اَجر کے ضياع کو جمع نہ کرو۔
(47)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلِّغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”چھوٹے بچے(گویا) جنت کے پتنگے ہيں(یعنی بلاروک ٹوک جنت میں آجاسکتے ہیں) ان ميں سے کوئی ايک اپنے والد يا والدين سے ملے گا تو ان کا دامن پکڑ کر کھينچے گايہاں تک کہ اسے جنت ميں لے جائے گا۔”
(صحیح مسلم،کتاب البر و الصلۃ،باب فضل من یموت لہ۔۔۔۔۔۔ الخ،الحدیث:۶۷۰۱،ص۱۱۳۷)
(48)۔۔۔۔۔۔جب حضرت سيدناابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بيٹے کو دفن کيا گيا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسکرانے لگے، جب اس کا سبب پوچھا گيا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا:”ميں نے سوچا کہ شيطان کو رسوا کروں۔”
(کتاب الکبائر،فصل فی التعزیۃ ،ص۲۲۰)
(49)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عمر بن عبد العزيز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بيٹے کو نزع کے عالم ميں ديکھا تو ارشاد فرمايا:”بيٹا! تم ميرے ميزان ميں رکھے جاؤ يہ مجھے اس بات سے زيادہ پسند ہے کہ ميں تمہارے ميزان ميں رکھا جاؤں۔” (المرجع السابق، ص۲۲۰)
(50)۔۔۔۔۔۔جب حضرت سيدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت آپ کا خون آپ کے چہرے پر بہا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے يہ دعا مانگی: ” لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِين ۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیۤ اَسْتَعِيْنُ بِکَ عَلَيْھِمْ وَ اَسْتَعِيْنُکَ عَلٰی جَمِيْعِ اُمُوْرِیْ وَ اَسْئَلُکَ الصَّبْرَ عَلٰی مَآ اَبْلَيتنِیْ ترجمہ : تيرے سوا کوئی معبود نہيں، تو پاک ہے، بے شک مجھ سے بے جاہوا۔ اے اللہ عزوجل ميں ان کے مقابلے ميں تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور اپنے تمام امور ميں تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور تو نے مجھے جس آزمائش ميں مبتلا فرمايا ہے ميں اس پر صبر کا سوال کرتا ہوں ۔” (المرجع السابق، ص۲۲۰)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(51)۔۔۔۔۔۔جب حضرت سيدنا عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پاؤں ناسور کی وجہ سے کاٹا گيا تو آپ نے آہ تک نہ کی بلکہ یہ آیتِ مبارکہ پڑھی:
لَقَدْ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا ﴿62﴾
ترجمۂ کنز ا لايمان:بے شک ہميں اپنے اس سفر ميں بڑی مشقت کا سامنا ہوا۔(پ15، الکھف:62)
اور اس رات بھی اپنے رات کے وظائف ترک نہ کئے، اور اسی رات حضرت سيدنا وليدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک نابینا شخص آیا، حضرت سيدنا وليدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے حال دریافت فرمایا تو اس نے بتايا :”ميرے اہل وعيال، اولاد اور بہت سا مال تھا، سيلاب آيا اور سب کچھ بہا کر لے گيا، ميرے پاس صرف ايک اونٹ اور اس کا بچہ باقی بچا، اونٹ بدک کر بھاگا اور اس کا بچہ بھی پيچھے ہو ليا تو بھيڑيا اس بچے کو کھا گيا، پھر جب ميں اونٹ کے پاس پہنچا تو اس نے مجھے لات ماری جس سے ميری بينائی جاتی رہی، پھر وہ اونٹ بھی چلا گيا اور ميں مال واولاد سے محروم ہو گيا۔” حضرت سيدنا وليدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”اس کو حضرت سیدنا عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے چلو تا کہ يہ جان لے کہ اس سے زيادہ مصيبت زدہ لوگ بھی دنيا ميں ہيں۔”
(المرجع السابق، ص۲۲۰)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(52)۔۔۔۔۔۔حضرت مدائنی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بيابان ميں ايک نہايت حسين وجميل عورت کو ديکھا تو گمان کيا کہ شايد يہ بہت خوشحال ہے، لیکن اس نے بتايا :”وہ غموں اور پريشانيوں کی ہم نشین ہے، ایک مرتبہ اس کے شوہر نے ايک بکری ذبح کی تو اس کے بيٹوں ميں سے ايک نے اپنے بھائی کو اسی طرح ذبح کرنے کا ارادہ کيا اور اسے ذبح کر ديا پھر وہ گھبرا کر پہاڑ کی طرف بھاگ گيا اور بھيڑيا اسے کھا گيا، اس کا باپ اس کے پيچھے گيا تو بيابان ميں بھٹک گيا اور پیاس کی شدت سے وہ بھی ہلاک ہو گيا۔” تو آپ نے اس سے پوچھا:”تمہيں صبر کيسے آيا؟” اس نے جواب ديا:”وہ تکلیف تو ايک زخم تھا جوبھر گيا۔” (المرجع السابق،ص۰ ۲۲)