islam
کبيرہ نمبر175: نجس یعنی ناپاک چیز کھانا کبيرہ نمبر176: گندگی کھانا کبيرہ نمبر177: نقصان دہ چيزيں کھانا
کبيرہ نمبر175: نجس یعنی ناپاک چیز کھانا
کبيرہ نمبر176: گندگی کھانا
کبيرہ نمبر177: نقصان دہ چيزيں کھانا
ان تينوں کو بھی کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے، پہلی چيز کے کبیرہ ہونے کے بارے ميں دلیل یہ ہے کہ اسے مردار پر قياس کيا گيا ہے کيونکہ وہ نقصان دہ ہونے کی وجہ سے حرام نہيں بلکہ نجاست کی وجہ سے ہے اور اللہ عزوجل نے اسے فسق کا نام ديا ہے، لہذا ہر غير معاف نجاست اس سلسلے ميں اس کے ساتھ ملحق ہو گی، پس اسے کبيرہ شمار کرنے کی وجہ ظاہر ہو گئی۔
دوسری چيز کے کبیرہ ہونے کی دلیل يہ ہے کہ يہ گندگی ہے جيسا کہ ناک کی رينٹھ۔ اور تيسری چيز کے کبیرہ ہونے کی دلیل يہ ہے کہ اس ميں حکم ظاہر ہے کيونکہ نقصان دہ چيز کاکھانا بدن اور عقل کو خراب کرتا ہے جو عظيم گناہ ہے اور جيسا کہ غير کو نقصان دينا جوبرداشت کی طاقت نہ رکھتاہو کبيرہ گناہ ہے اسی طرح اپنے آپ کو نقصان دينا بھی کبيرہ گناہ ہے بلکہ يہ سب سے بڑا ہے کيونکہ اپنی حفاظت غير کی حفاظت سے زيادہ اَہم ہوتی ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
چندمسائلِ فقہیہ:
ہمارے اصحابِ شوافع رحمہم اللہ تعالیٰ نے ذکر کيا ہے کہ”بدن کو نقصان دينے والی پاک چيزوں کا کھانا بھی حرام ہے جيسے مٹی (احناف کے نزدیک:”مٹی حدِضررتک کھاناحرام ہے۔”(بہارِشریعت،ج۱،حصہ۲،ص۶۳) ، زہر اور افيون، مگر سلامتی کے غالب گمان کے ساتھ دوا کی حاجت کے لئے اس کی قليل مقدار جائز ہے يا عقل کو نقصان دينے والی پاک چيزوں کا کھانا بھی حرام ہے جيسے نشہ والی بوٹياں جو سستی پیدا نہ کرتی ہوں اوران سے علاج کروا سکتا ہے اگرچہ نشہ والی ہوں بشرطيکہ شفاء متعين ہو، اس کی صورت يہ ہے کہ دو عادل طبيب کہیں:”اس کے سوا کوئی چيز تيری بيماری کو نفع نہ دے گی۔” اور اگر بوٹی کے بارے ميں شک ہو کہ آيا يہ زہريلی ہے يا نہيں؟ يا دودھ کے بارے ميں شک ہو کہ آيا ان جانوروں کا ہے کہ جن کا گوشت کھايا جاتا ہے يا جن کا گوشت نہيں کھاياجاتا؟ تو اس کا کھانا يا پينا حرام ہے۔
اگر مکھی وغيرہ پکے ہوئے کھانے ميں گر گئی اور اس ميں گل گئی تو اس کا کھاناجائز ہے اور پرندے يا آدمی کا کوئی عضو پکے ہوئے کھانے ميں گر گيا تو اس کا کھاناجائز نہيں اگرچہ وہ اس ميں حل ہو گيا ہو۔
اگر نجاست کھانے ميں پائی گئی اور وہ جمی ہوئی ہے اور شک ہے کہ کيا اس ميں مائع حالت ميں گری يا ٹھوس حالت ميں تو اس کھانے کو کھاناجائز ہے کيونکہ اصل اس کی طہارت ہے، جبکہ اس کے جمی ہوئی حالت ميں گرنے کا احتمال ہو، پس اسے اور اس کے ارد گرد کو نکال ديا جائے گا اگرچہ ظن غالب ہو کہ وہ مائع حالت ميں گری۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سانپوں کے گوشت کے ساتھ ملی ہوئی دوا(يعنی دواؤں سے زہر کا اثر دور کرنے کے لئے استعمال ہونے والی دوا)حرام ہے، سوائے اس ضرورت کے جس ميں مردار کھانا جائز ہوتا ہے اور اگر کسی زمين ميں حرام عام ہو جائے اور کوئی حلال چيز باقی نہ رہے اور جاننے والے لوگ بھی اس ميں مبتلا ہو جائيں تو قدرے حاجت کھانا جائز ہے نہ کہ عيش کوشی کے لئے اور يہ(یعنی عیش پرستی کے لئے کھانا) ضرورت پر موقوف نہيں۔