islam
کبيرہ نمبر187: بيوعِ فاسدہ اور ديگر حرام ذرائع سے روزی کمانا
اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبَاطِلِ
ترجمۂ کنزالايمان:اے ايمان والو آپس ميں ايک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)
اس سے مراد کيا ہے اس ميں اختلاف ہے، ايک قول کے مطابق:”اس سے مراد سود، جوا، غصب، چوری، خيانت، جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم کے ذريعے مال بيچنا ہے۔”
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہيں:”باطل سے مراد وہ مال ہے جو انسان سے کسی عوض کے بغير ليا جاتا ہے۔”ايک قول يہ ہے کہ”جب يہ آيت نازل ہوئی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کسی کے ہاں کھانا کھانے سے احتراز کرنے لگے يہاں تک کہ سورہ نور کی يہ آيت مبارکہ نازل ہوئی:
وَلَا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ م بُیُوْتِکُمْ اَوْبُیُوتِ اٰبَآئِکُمْ
ترجمۂ کنز الايمان:اور نہ تم ميں کسی پر کہ کھاؤ اپنی اولاد کے گھر یا اپنے باپ کے گھر۔(پ۱۸، النور:۶۱)
ايک قول يہ ہے:”ان سے مراد عقود فاسدہ ہيں۔”
حضرت سيدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کی توجيہ يہ ہے کہ يہ آيت مبارکہ مُحْکَمْ ہے(یعنی اس کاحکم پختہ ہے)، منسوخ (یعنی جس کا حکم ختم ہو جائے)نہیں ہوئی اور نہ قيامت تک ہوگی کيونکہ باطل طريقے سے مال کھانا ہر اس صورت کو شامل ہے جس ميں ناحق مال ليا جائے خواہ وہ ظلم کے طريقے سے ہو جيسے غصب، خيانت اور چوری وغيرہ يامزاح، مسخری يا کھيل کود مثلاًجوا اور آلاتِ لہووغيرہ (عنقريب ان تمام چيزوں کا بيان آئے گا) يا مکر و فريب کے طريقے سے لیاجائے جيسے عقدِ فاسد کے ذريعے حاصل کيا جانے والا مال۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کایہ قول بھی ہمارے موقف کی تائيد کرتا ہے کہ يہ آيت مبارکہ انسان کے اپنے ہی مال کو باطل طريقے سے کھانے کو بھی شامل ہے مثلا ًآدمی اپنااوردوسرے کا مال حرام کام ميں خرچ کرے جیسے مذکورہ مثالیں ۔
اللہ عزوجل کے اس فرمان:”اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃٌ” ميں استثناء منقطع ہے کيونکہ باطل کا خواہ کوئی بھی معنٰی مراد ليا جائے، تجارت باطل کی جنس سے نہيں اور اسے متَّصل بنانے کے لئے سبب کی تاويل کرنا اپنے محل ميں نہيں اور تجارت کا لفظ اگرچہ عوض والے عقود کے ساتھ خاص ہے مگر قرض اور ہبہ وغيرہ بھی ديگر دلائل کی بناء پر اس کے ساتھ ملحق ہيں۔
اللہ عزوجل کے اس فرمان:”عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ”سے مراد يہ ہے کہ جائز طريقے کے مطابق خوش دلی ہو اور اس ميں کھانے کاخاص طور پر ذکر کرناکھانے کے ساتھ مقيد کرنے کے لئے نہيں بلکہ اس کے مال سے نفع حاصل کرنے کے غالب ذريعہ ہونے کی وجہ سے کيا گيا ہے، جيسا کہ اس آیتِ مبارکہ ميں ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕ
ترجمۂ کنز الايمان: وہ جويتيموں کا مال ناحق کھاتے ہيں وہ تو اپنے پيٹ ميں نِری آگ بھرتے ہيں۔(پ4، النسآء:10)
اس بحث کے دلائل وافر ہيں اور اس ميں سختی پر وارد احادیثِ مبارکہ بھی بيشتر ہيں مگر ہم ان ميں سے بعض پراکتفاء کريں گے۔
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اللہ عزوجل پاک ہے اور پاک ہی کودوست رکھتاہے اور اللہ عزوجل نے مؤمنين کو وہی حکم ديا ہے جو مرسلين کو ديا تھاپس اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوۡا صَالِحًا ؕ
ترجمۂ کنز الايمان:اے پيغمبرو پاکيزہ چيزيں کھاؤ اور اچھے کام کرو ۔
اور فرمايا:(پ18، المؤمنون:51)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ
ترجمۂ کنز الايمان: اے ايمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چيز يں۔(پ2، البقرۃ:172)
پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ايک شخص کا ذکر کيا جو طويل سفر کرتاہے،جس کے بال پریشان اوربدن غبار آلود ہے(یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جودعا کرے وہ قبول ہو) اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر يا رب! يا رب! کہتاہے حالانکہ اس کا کھانا حرام ہو،پينا حرام ، لباس حرام ، اورغذا حرام،پھر اس کی دعاکیسے قبول ہو گی۔”(یعنی اگرقبول کی خواہش ہوتوکسبِ حلال اختیارکروکہ بغیراس کے قبولِ دعاکے اسباب بے کارہیں)
( المسندللامام احمد بن حنبل ، مسند ابی ھریرہ ،الحدیث: ۸۳۵۶ ، ج۳ ، س ۲۲۰)
(2)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”رزقِ حلال کی تلاش ہر مسلمان پر واجب ہے۔” ( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۸۶۱۰ ،ج۶، ص۲۳۱)
(3)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکا فرمانِ عالیشان ہے:”رزقِ حلال کی تلاش فرائض کی ادائيگی کے بعد ايک فرض ہے۔”
( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۹۹۹۳، ج۱۰ ، ص ۷۴)
(4)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے پاکيزہ کھانا کھايا اور سنت کے مطابق عمل کيا اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہے وہ جنت ميں داخل ہو گا۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”يارسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! آج آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اُمت ميں ايسے لوگ بہت ہيں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”عنقريب ميرے چند صدياں بعد بھی ہوں گے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( جامع الترمذی ،ابواب صفۃ القیامۃ ، باب حدیث اعقلھا وتو کل ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۲۵۲۰ ، ص۱۹۰۵ )
(5)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اگر تم ميں چارخوبياں ہوں تو تمہيں دنيا کی کسی محرومی سے نقصان نہ ہو گا: (۱)امانت کی حفاظت (۲)سچی بات کہنا (۳)حسن اخلاق اور (۴)پاک کھانا۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند عبداللہ بن عمر و بن العاص ، الحدیث: ۶۶۶۴، ج۲ ، ص ۵۹۲)
(6)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس کی روزی پاکيزہ ہو، باطن اچھا ہو،ظاہر عزت والا ہو اور جو لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے اس کے لئے خوشخبری ہے، نیز جس نے اپنے علم پر عمل کيا اور اپنا ضرورت سے زائد مال خرچ کيا اور فضول گوئی سے رکا رہا اس کے لئے سعادت ہے۔” ( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۴۶۱۶ ، ج۵ ، ص ۷۲)
(7)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العٰلمین، جنابِ صادق وامین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اے سعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت ميں محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پيٹ ميں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہيں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زيادہ بہترہے۔” (المعجم الاوسط ، الحدیث: ۶۴۹۵، ج۵ ، ص ۳۴)
(8)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس ميں امانت نہيں نہ اس کا دين ہے نہ نماز اور نہ ہی زکوٰۃ۔ جس نے حرام مال سے قميص بنا کر پہنی جب تک وہ قميص اتار نہ دے اس کی نماز قبول نہ ہو گی،بے شک يہ بات اللہ عزوجل کے شايانِ شان نہيں کہ وہ ايسے شخص کا عمل يانمازقبول فرمائے جس نے حرام کی قمیص پہن رکھی ہو۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( البحر الزخار ، بمسند البزار ، مسند علی بن ابی طالب ، الحدیث:۸۱۹، ج۳ ، ص ۶۱ )
(9)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہيں:”جس نے 10درہم کا کپڑا خريدا اور اس ميں ايک درہم حرام کا تھا تو جب تک وہ لباس اس کے بدن پر رہے گا اللہ عزوجل اس کی کوئی نماز قبول نہيں فرمائے گا۔” پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کانوں ميں انگلياں ڈال کر ارشاد فرمايا:”اگر ميں نے يہ بات تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے نہ سنی ہو تو میرے کان بہرے ہو جائيں۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل،مسندعبداللہ بن عمر بن خطاب،الحدیث:۵۷۳۶، ج۲، ص۴۱۶تا۴۱۷)