Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبیرہ نمبر53: وعدہ پورا نہ کرنا

للہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے :
(1) وَاَوْفُوۡا بِالْعَہۡدِ ۚ اِنَّ الْعَہۡدَکَانَ مَسْـُٔوۡلًا ﴿34﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اورعہدپورا کروبے شک عہدسے متعلق سوال ہونا ہے۔(پ15، بنیۤ اسرآء یل:34)
(2) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕ
ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو!اپنے قول پورے کرو۔(پ6، المآئدۃ: 1)
    حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ بِالْعُقُوْدِسے مراد اللہ عزوجل کی حرام، حلال اور فرض کردہ اشیاء اور ان میں کی گئی حدبندیاں ہیں۔” سیدناامام مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
    اسی وجہ سے امام ضحاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا :”یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں نبھانے کا اللہ عزوجل نے وعدہ لیا ہے کہ وہ اس کے حلال، حرام اورفرض اُمور جیسے نماز وغیرہ ادا کریں گے۔” 
    یہ تفسیر سیدنا ابن جریج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قول سے بہتر ہے :”یہ آیتِ مبارکہ اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی یعنی اے پچھلی کتا بوں پر ایمان لانے والو! تم سے شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردْگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بارے میں جو عہد لئے گئے ہیں انہیں پورا کرو ان میں سے ایک عہد یہ بھی ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ترجمۂ کنز الایمان:اوریاد کروجب اللہ نے عہدلیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضروراسے لوگوں سے بیا ن کردینا۔(پ4، اٰل عمران:187)
    حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :”اس سے مراد وہ قسمیں ہیں جو زمانۂ جاہلیت میں معاملات پر اٹھائی جاتی تھیں۔” جبکہ امام زجاج کہتے ہیں :”عقود سے مراد عہدہیں کیونکہ عہد کسی چیز کو ثابت کرتے ہیں اور عقود بھی احکام اور معاہدے کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایمان بھی چونکہ ایک عقد اور عہد ہے یعنی اللہ عزوجل کی ذات، صفات اور احکام کی معرفت حاصل کرناتو اس اعتبار سے مخلوق پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے وعدے کو نبھاتے ہوئے اللہ عزوجل کے تمام احکام کے سامنے سرِ تسليم خم کرديں ۔ 
    لہٰذا گذشتہ آیتِ کریمہ کا معنی یہ ہو گا :”تم نے اپنے ایمان سے جو مختلف قسم کے عہد و پیمان اور اللہ عزوجل کے تمام اوامر ونواہی میں اس کی فرمانبرداری کواپنے اوپر لازم ٹھہرا لیا ہے تو اب ان سب عہدوں کو پورا کرو۔”
(1)۔۔۔۔۔۔سیدنا ابن شہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :” سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جو مکتوب حضرت سیدنا عمرو بن حزم کو نجران بھیجتے وقت عطا فرمایا تھا میں نے اس کی ابتداء میں یہ لکھا ہوا پڑھا :”یہ وضاحت اللہ عزوجل اوراس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی جانب سے ہے:


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕ اُحِلَّتْ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیۡکُمْ غَیۡرَ مُحِلِّی الصَّیۡدِ وَاَنۡتُمْ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیۡدُ ﴿1﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللہِ وَلَا الشَّہۡرَ الْحَرَامَ وَلَا الْہَدْیَ وَلَا الْقَلَآئِدَ وَلَاۤ آٰمِّیۡنَ الْبَیۡتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوۡنَ فَضْلًا مِّنۡ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوۡا ؕ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنۡ تَعْتَدُوۡا ۘ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ۪ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۪ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ ﴿2﴾ حُرِّمَتْ عَلَیۡکُمُ الْمَیۡتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ
ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو!اپنے قول پورے کروتمہارے لیے حلال ہوئے بے زبان مویشی مگروہ جوآگے سنا یا جائے گا تم کولیکن شکار حلال نہ سمجھو جب تم احرام میں ہوبے شک اللہ حکم فرماتاہے جوچاہے ، اے ایمان والوحلال نہ ٹھہرا لو اللہ کے نشان اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ جن کے گلے میں علامتیں آویزاں اور نہ ان کا مال وآبرو جو عزت والے گھر کا قصد کر کے آئیں اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی چاہتے اور جب احرام سے نکلو تو شکار کر سکتے ہو اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا زیادتی کرنے پر نہ ابھارے اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے تم پرحرام ہے مردار اورخون اور وَالْمَوْقُوۡذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیۡحَۃُ وَمَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمْ ۟ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسْتَقْسِمُوۡا بِالۡاَزْلَامِ ؕ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ؕ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیۡ مَخْمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿3﴾یَسْئَلُوۡنَکَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمْ ؕ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُمۡ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ تُعَلِّمُوۡنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللہُ ۫ فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمْسَکْنَ عَلَیۡکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیۡہِ ۪ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ سَرِیۡعُ الْحِسَابِ ﴿4﴾


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیرخدا کا نا م پکاراگیا اور وہ جو گلا گھونٹنے سے مرے اوربے دھار کی چیزسے مارا ہوااورجوگرکرمرا اور جسے کسی جانورنے سینگ مارا اورجسے کوئی درندہ کھاگیا مگرجنہیں تم ذبح کر لو اور جو کسی تھان پرذبح کیا گیا اورپانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کام ہے آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس ٹوٹ گئی تو ان سے نہ ڈرواورمجھ سے ڈروآج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کا مل کردیا اور تم پراپنی نعمت پوری کردی اورتمہارے لیے اسلام کودین پسندکیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچارہویوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے توبے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،اے محبوب تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال ہواتم فرمادوکہ حلال کی گئیں تمہارے لیے پاک چیزیں اورجوشکاری جانورتم نے سدھا لیے انہیں شکارپردوڑ اتے جوعلم تمہیں خدا نے دیا اس سے انہیں سکھا تے توکھاؤاس میں سے جووہ مارکرتمہارے لیے رہنے دیں اوراس پراللہ کانام لواوراللہ سے ڈرتے رہوبے شک اللہ کوحساب کرتے دیرنہیں لگتی۔(پ6، المآئدۃ:1تا4)
    حضرت سیدنا امام اعظم علیہ رحمۃاللہ الاکرم کے نزدیک اس آیت کا حکم عام ہے اس سے انہوں نے عید کے دن کے روز ے کی نذر صحیح ہونے پراستدلال کیا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے ان فرامین: ”یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ ترجمۂ کنز الایمان: اپنی منتیں پوری کرتے ہيں۔(پ۲۹،الدھر:۷)”اور ”وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَاعٰہَدُوْا ترجمۂ کنز الایمان:اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کريں۔”(پ۲،البقرۃ:۱۷۷) کے ساتھ مزید پختہ کیانیز حدیث پاک میں ہے کہ حضور نبئ کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اپنی نذرکو پورا کرو۔”
 (صحیح البخاری، کتاب الایمان والنذور،با ب اثم من لایفی بالنذر،الحدیث:۶۶۹۷،ص۵۵۹)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    یوں ہی آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے خیارِمجلس کے انکارپر بھی استدلال کیاہے کیونکہ عقدمنعقدہوچکا(تواختیارباقی نہ رہے گا)نیز اکٹھی دی جانے والے تین طلاقوں کی حرمت پربھی استدلال کیاہے کیونکہ نکاح ایک عقد ہے جسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ”اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕ ترجمۂ کنز الایمان:اپنے قول پورے کرو۔”(پ۶، المآئدۃ:۱)کی وجہ سے ختم کرناحرام ہے پھریہ کہ ایک طلاق کا حرام نہ ہوناتواجماع کی وجہ سے ہے لہٰذا جوایک کے علاوہ ہے (یعنی اکٹھی تین طلاقیں)اس میں حکم اپنی اصل(یعنی حرمت) پر باقی رہے گا۔
     سیدنا امام شافعی علیہ رحمۃاللہ الکافی نے ان تینوں مسائل میں امام اعظم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے اختلاف کیاہے۔
    وہ فرماتے ہیں :”اس آیت کریمہ  (یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕ ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والواپنے قول پورے کرو۔(پ۶، المائدۃ:۱))کے عام حکم میں اس صحیح حدیث پاک سے تخصیص ثابت ہے کہ ”اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کوئی نذر نہیں ہوتی۔”
 (فتح الباری، شرح صحیح البخاری،کتاب الایمان والنذور،باب النذرفیمالایملک ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۱۱،ص۵۰۲ملخصاً)
     اور اس صحیح حدیث سے خیارمجلس کی تخصیص ثابت ہے :”دوخریدوفروخت کرنے والوں کوجداہونے سے پہلے اختیارحاصل ہے۔”
 (السنن الکبری للامام بیہقی ، کتاب البیوع، باب المتبایعان بالخیار۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۱۰۴۳۴،ج۵،ص۴۴۲)
    (اوراکٹھی طلاقوں کے جائزہونے کی قیاس جلی سے تخصیص ثابت ہے کہ)اگرایک طلاق کودوسری طلاق کے ساتھ جمع کرناحرام ہوتا تو وہ نافذنہ ہوتی پس جب اس کانافذہونابالاجماع ثابت ہے تویہ اس کے حلال(یعنی جائز)ہونے پردلیل ہے اور عقود کا نافذ ہو جانا اس کے حلال ہونے کاتقاضاکرتا ہے اوراس پروہ صحیح حدیث پاک بھی دلالت کرتی ہے :” لعان کرنے والے نے نافذ ہونے کا گمان کرتے ہوئے اکٹھی تین طلاقیں دیں اورحضورنبی کریم،رء ُوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ایساکرنے سے منع نہ فرمایا۔” اگرتین طلاقوں کواکٹھاکرناحرام ہوتاتوپھرتووہ حرام کام کرنے والاہوتاجس سے اسے منع کرناواجب ہوتاپس جب حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ایساکرنے سے منع نہ فرمایاتویہ اس کے جائزہونے پردلیل ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لغو کام سے کیوں نہ روکااس لئے کہ ہم نے اس کی طرف یوں اشارہ کر دیا ہے کہ وہ واقع کے اعتبار سے لغو تھی مگر اس کے گمان میں لغو نہ تھی کیونکہ اس نے گمان کیا تھا کہ اس طرح اس پر بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی پس اس نے اکٹھی تين طلاقیں دے دیں اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے درمیان یہ بات متعارف تھی کہ اکٹھی تين طلاقیں دیناحرام نہيں وگرنہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسے ایسا کرنے سے ضرور منع فرماتے ۔
    یہ سب بیان کرنے کا مقصد اصل میں احکام پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا مکلف بنانا ہے، ان ساری چیزوں کو عقود اس وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ اللہ عزوجل نے ان کے حکم کو حتمی اور پختہ قرار دیا ہے لہٰذا ان سے کسی بھی صورت میں چھٹکارا ممکن نہیں۔ ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ ایسے عقود ہیں جو عام طور پر لوگوں کے درمیان طے پاتے رہتے ہیں۔
وہ روایات جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عہدوں کو پورا کرنا چاہے اور انہیں پورا نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے وہ درج ذیل ہیں:
(2)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس شخص میں یہ چار خصلتیں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک علامت پائی جائے گی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے، اور وہ خصلتیں یہ ہیں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (۳)جب عہد کرے تو دھوکا دے اور (۴)جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلوچ بکے ۔”
 (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق،الحدیث: ۳۴،ص۵)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (3)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :” قیامت کے دن ہر خائن (کی پہچان) کے لئے ایک جھنڈا ہو گا، کہا جائے گا یہ فلاں کی خیانت ہے۔”
 (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب تحریم الغدر، الحدیث:۴۵۳۳،ص۹۸۶)
 (4)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :”ميں قیامت کے دن تین افراد کامقابل ہوں گا: (۱)وہ شخص جس کو میری خاطر کچھ دیا گیا ہو لیکن وہ اس میں خیانت کرے (۲)وہ شخص جو کسی آزاد انسان کو بیچ دے اور پھر اس کی قیمت کھالے (۳)وہ شخص جس نے کوئی مزدور اُجرت پر لیا اور پھر اس سے کام تو پورا لیا لیکن اس کی اُجرت اسے نہ دی۔”
        (صحیح البخاری، کتاب البیوع،باب اثم من باع حراً،الحدیث: ۲۲۲۷،ص۱۷۳)
 (5)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے اللہ عزوجل کی اطاعت چھوڑدی وہ قیامت کے دن اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس (عذاب سے بچنے کی) کوئی حجت نہ ہو گی، اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت کا پٹہ نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔”
 (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۴۷۹۳،ص۱۰۱۰)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تنبیہ:

    عہد شکنی کو کبیرہ گناہ شمار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کو کئی علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے کبیرہ گناہ شمار کیا ہے، البتہ ان میں سے بعض نے اس کو عہد شکنی اور بعض نے وعدہ خلافی کا نام دیا۔ 
سوال:دونوں اقوال یا تو آپس میں ایک جیسے ہوں گے یا پھر ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے، اس بناء پر ہر ایک کو کبیرہ شمار کرنا مشکل ہے کیونکہ شافعی مذہب میں وعدہ پورا کرنا مستحب ہے واجب نہیں، جب کہ عہد پورا کرنے کو اللہ عزوجل نے واجب قرار دیا اور وعدہ خلافی کو حرام قرار دیا، لہٰذا جو چیز مستحب ہو اس کی مخالفت کرنا تو جائز ہوتا ہے لیکن جو چیز واجب یا حرام ہو اس کی مخالفت کبھی تو کبیرہ ہوتی ہے اور کبھی صغیرہ، تو پھر مطلقاً وعدہ پورا نہ کرنے کو کیسے کبیرہ گناہ کہا جا سکتا ہے؟ 
جواب: اگر تو وعدہ پورا نہ کرنے سے مراد یہ ہو کہ سرے سے پورا ہی نہ کیا جائے تو یہ کبیرہ گناہ ہے اور اس لحاظ سے اسے ایک الگ مستقل کبیرہ گناہ شمار کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اسے دوسرے کبیرہ گناہوں میں سے کسی کے ضمن میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 
    وہ افراد جنہوں نے اسے عہدشکنی کا نام دیا ہے ان کے نزدیک نذر وغیرہ کو پورا کرنا واجب ہو گا اور اس کا ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے کیونکہ نذر کو پورا کرنا شرع نے واجب قرار دیا ہے اور اسی طرح نماز، زکوٰۃ، حج یا روزے کو ترک کر دینا بھی کبیرہ گناہ ہے اس کا بیان(ان شاء اللہ عزوجل) آئندہ آئے گا۔
     وہ افراد جو کہتے ہیں کہ یہ وعدہ خلافی ہے تو ان کے اس قول کو کسی مخصوص چیز پر محمول کیا جائے گا کہ جو وضاحت کے بغیر معلوم نہ ہو سکتی ہو، مثلاً کوئی شخص ایک امام کی بیعت کرے پھر بغیر کسی وجہ کے اس کے خلاف لڑنے کی خاطر نکل کھڑا ہو تو یہ کبیرہ گناہ ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(6)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا:”تین افراد ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک فرمائے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا۔”اس حدیث پاک میں آگے چل کر ارشاد فرمایا :” وہ شخص جو کسی امام کی بیعت دنیا کی خاطر کرے یعنی اگر وہ اسے اس کی خواہش کے مطابق دے تو اس سے وفا کرے اور اگر کچھ نہ دے تو بے وفائی کرے۔”
 (صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۹۷،ص۶۹۶)
    جبکہ بخاری شریف کی روا یت میں یہ الفاظ ہیں:”وہ شخص جس کو میری خاطر کچھ دیا گیا ہو لیکن وہ اس میں خیانت کرے ۔”
 (صحیح البخاری، کتاب البیوع،باب اثم من باع حراً،الحدیث: ۲۲۲۷،ص۱۷۳)
    اور مسلم شریف کی روا یت کے الفاظ یہ ہیں:”جس نے اللہ عزوجل کی اطاعت ترک کردی ۔”
 (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۴۷۹۳،ص۱۰۱۰)
 (7)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو یہ پسند کرتا ہے کہ وہ جہنم سے دور ہو جائے اور جنت میں داخل ہوجائے تو اسے چاہے کہ جنت کا مقصود بھی پورا کرے یعنی اللہ عزوجل اور قیامت کے دن پر ایمان لائے، اوراس پرلازم ہے کہ جومعاملہ اپنے لئے پسند کرتاہووہی دوسروں کے ساتھ کرے اورجو شخص ہاتھ پرہاتھ رکھ کردل  کی گہرائیوں سے کسی امام کی بیعت کرلے تو اب اسے چاہے کہ بقدرِ استطاعت اس کی پیروی کرے اور اگر اس کے پاس اس کا کوئی مخالف آئے تو اس کی گردن تن سے جدا کر دے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (المرجع السابق،باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلیفۃ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۴۷۷۶،ص۱۰۰۹)
 (8)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے کسی حربی کو امان دی پھر اس کے ساتھ دھوکا کیا اور اسے قتل کر دیا تو یہ کبیرہ گناہ ہے۔”

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!